لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ
کہ تم ضرور ہی ایک حالت سے دوسری حالت کو چڑھتے جاؤ گے۔
[١٤] اس مقام پر تین باتوں کی قسم کھائی گئی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں حرکت ہی حرکت ہے، سکون اور ٹھہراؤ نہیں۔ پھر یہ حرکت بھی یکدم واقع نہیں ہوجاتی بلکہ اس میں تدریج کا اصول کام کر رہا ہے۔ سورج غروب ہوتا ہے تو یک دم تاریکی نہیں چھا جاتی بلکہ کچھ دیر تک اس کے اثرات باقی رہتے ہیں۔ رات بھی بتدریج اپنے مکینوں کو اپنی اپنی قرار گاہ کی طرف کھینچ لاتی ہے۔ چاند بھی مکمل ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ ہوتا ہے۔ اس میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ تاہم مکمل ضرور ہوتا ہے۔ اسی طرح تم بھی بتدریج منزل بہ منزل اپنی آخری منزل کی طرف بڑھے چلے جارہے ہو اور تمہیں وہاں جاکر دم لینا ہے۔ پہلے انسان نطفہ تھا۔ رحم مادر میں ہی اس کی سات حالتیں بدلیں۔ پھر بچپن، بچپن سے جوانی، جوانی سے بڑھاپا اور بڑھاپے سے موت۔ یہ ایسی منزلیں ہیں جنہیں طے کرنے میں انسان بالکل بے بس اور مجبور ہے۔ ان میں سے کوئی منزل حذف کرنا چاہے تو وہ قطعاً ایسا نہیں کرسکتا۔ رہی یہ بات کہ انسان کی آخری منزل کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ جنت یا دوزخ ہے۔ گویا انسان مرنے کے بعد بھی کئی منازل طے کرنے پر مجبور ہوگا۔ اسے عذاب و ثواب قبر سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اسے مرنے کے بعد دوبارہ جی کر اٹھنا ہوگا۔ اسے قیامت کی سختیاں سہنا ہوں گی۔ اسے اللہ کی عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔ دنیا میں بھی اللہ کا ایسا ہی قانون کار فرما ہے۔ آخرت میں بھی یہ سب واقعات پیش آکے رہیں گے اور اس میں انسان کے اپنے ارادہ و اختیار کو کچھ دخل نہ ہوگا۔