وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
اور وہ شخص جو اللہ کے راستے میں ہجرت کرے، وہ زمین میں پناہ کی بہت سی جگہ اور بڑی وسعت پائے گا اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے موت پالے تو بے شک اس کا اجر اللہ پر ثابت ہوگیا اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔
[١٣٦] ہجرت کے مقاصد اور ضرورت :۔ ہجرت اس لیے فرض کی گئی تھی کہ ایک تو مسلمان کفار کے تشدد سے آزاد ہو کر اپنے اسلامی شعائر آزادی کے ساتھ بجا لا سکیں۔ اور دوسرے اس لیے کہ مدینہ کی طرف ہجرت کر کے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کے لیے مددگار ثابت ہوں۔ پھر جب مکہ فتح ہوگیا اور پورے خطہ عرب میں اسلام کا بول بالا ہوگیا تو پھر ہجرت کی ضرورت نہ رہی۔ جیسا کہ کئی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اب تاقیامت ہجرت فرض نہیں۔ بلکہ جب بھی دوبارہ ایسا موقع پیدا ہوجائے کہ کسی علاقہ میں مسلمانوں کو اپنے شعائر اسلام کو بجا لانا بھی مشکل ہو رہا ہو تو مسلمانوں کو کوئی ایسا خطہ تلاش کرنا چاہیے جہاں انہیں آزادی سے شعائر اسلام بجا لانے کی سہولت میسر ہو اور اپنے میں سے کوئی امیر منتخب کر کے اس طرف ہجرت کرنا اور اپنی اجتماعی قوت کو مرکوز کرنا اور پھر جہاد کرنا سب کچھ فرض ہوجائے گا۔ بلکہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ہجرت بھی جہاد کا ہی ایک حصہ ہوتی ہے۔ پھر جب اس علاقہ میں اسلام کا غلبہ ہوجائے تو وہاں بھی ہجرت کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ دارالکفر میں رہنے کی رخصت کی شرائط :۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کا دارالکفر میں رہنے کا جواز صرف دو صورتوں میں ہے ایک یہ کہ کوئی شخص اس خطہ میں اسلام کو غالب کرنے اور نظام کفر کو نظام اسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد میں لگا رہے۔ جیسا کہ انبیاء علیہم السلام اور ان کے ابتدائی پیرو کرتے رہے ہیں اور دوسرے یہ کہ وہ فی الواقع وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو۔ اور بیزاری اور نفرت سے مجبوراً وہاں رہ رہا ہو۔ ان صورتوں کے علاوہ دارالکفر میں رہنا مستقل معصیت ہے۔ [١٣٧] اللہ کا غفور الرحیم ہونا :۔ اس آیت میں صرف ہجرت کے سفر کا ذکر ہے۔ جبکہ کئی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ کی راہ میں کوئی سفر کیا جائے خواہ یہ ہجرت کا سفر ہو یا جہاد کا سفر ہو یا حج و عمرہ کا سفر ہو یا دینی علوم کے حصول کے لیے سفر ہو، اور دوران سفر حصول مقصد سے بعد یا پہلے موت واقع ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کا پورا پورا اجر عطا کردیتا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے : سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے ننانوے قتل کیے تھے۔ پھر وہ اپنے متعلق مسئلہ پوچھنے لگا۔ وہ ایک راہب کے ہاں گیا اور اسے پوچھا : کیا میرے لیے (توبہ کی) گنجائش ہے؟‘‘ اس نے کہا ''نہیں'' تو اس نے راہب کو بھی مار ڈالا (اور سو پورے کردیے) پھر لوگوں سے یہی مسئلہ پوچھتا رہا۔ کسی آدمی نے اسے کہا کہ فلاں فلاں بستی میں (توبہ کے لیے) چلے جاؤ۔ راستہ ہی میں اسے موت نے آ لیا۔ اس نے اپنا سینہ بستی کی طرف جھکا دیا۔ ابرحمت کے اور عذاب کے فرشتے آپس میں جھگڑنے لگے۔ جس بستی کی طرف وہ جا رہا تھا اللہ نے زمین کو حکم دیا کہ نزدیک ہوجا اور جس بستی سے جا رہا تھا اسے حکم دیا کہ دور ہوجا۔ اور فرشتوں سے فرمایا کہ فاصلہ ناپ لو۔ چنانچہ جہاں اسے جانا تھا وہ بستی ایک بالشت بھر قریب نکلی تو اسے بخش دیا گیا۔ (بخاری، کتاب الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسرائیل)