فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ
پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں ان (ستاروں) کی جو پیچھے ہٹنے والے ہیں !
[١٤] بطلیموسی نظریہ ہیئت اور خمسہ متحیرہ :۔ مندرجہ بالا آیات میں بارہ واقعات کا ذکر کیا گیا۔ ان میں سے پہلی چھ آیات یا چھ واقعات قیامت کی ابتدا یا نفخہ ئصور اول سے متعلق ہیں اور دوسرے چھ نفخہ صور ثانی یا میدان محشر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب اسی دنیا کے چند اہم امور کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے۔ بطلیموسی نظریہ ہیئت ٤٠٠ قبل مسیح سے لے کر سترہویں صدی تک یعنی دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ اتنا مقبول رہا کہ دنیا کے تمام مدارس اور یونیورسٹیوں میں اسی کی تعلیم دی جاتی رہی۔ اس نظریہ کے مطابق زمین کو ساکن اور سورج کو متحرک قرار دیا گیا۔ سات آسمان اور افلاک تسلیم کیے گئے اور ان پر سات سیارے۔ یعنی ہر فلک میں ایک سیارہ محو گردش ہے۔ اور اس نظریہ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج بھی ہندو پاکستان میں جنتریاں اسی نظریہ کے مطابق تیار کی جاتی ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق پہلے آسمان پر چاند، دوسرے پر زہرہ، تیسرے پر عطارد چوتھے پر سورج پانچویں پر مشتری، چھٹے پر مریخ اور ساتویں پر زحل گردش کرتے ہیں۔ چاند اور سورج کی گردش ہمیشہ سیدھی آگے کو رہتی ہے۔ جیسے فرمایا ﴿ وَسَخَّــرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَایِٕـبَیْنِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ ﴾ مگر باقی پانچ سیارے سیدھے آگے چلتے چلتے یکدم پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتے ہیں یعنی الٹی چال چلنے لگتے ہیں۔ پھر آگے کو بڑھنے لگتے ہیں اور پھر کسی وقت غائب بھی ہوجاتے ہیں۔ ان سیاروں کو خمسہ متحیرہ کہتے ہیں۔ ان دو آیات میں غالباً انہی سیاروں کی قسم کھائی گئی ہے۔