ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ
پھر اس کے لیے راستہ آسان کردیا۔
[١٣] اس آیت کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ماں کے پیٹ سے باہر آنا اس کے لیے آسان بنادیا۔ جب رحم مادر میں بچے کی نشوونما پوری ہوچکتی ہے تو ماں اس کو اپنے پیٹ سے باہر نکالنے کے لیے بے قرار ہوجاتی ہے اور جب تک اسے جن نہ لے اسے قرار نہیں آتا۔ راستہ تنگ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ وضع حمل کے وقت اس راستہ میں اتنی لچک پیدا کردیتا ہے کہ ماں کے لئے اس کا جننا آسان ہوجاتا ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمام ایسی قوتیں عطا کردیں اور استعداد مہیا کردی کہ وہ دنیا میں موجود وسائل و اسباب سے کام لے کر اپنی زندگی گزار سکے اور تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خیر و شر کے دونوں راستے سمجھا دیے۔ اس کی فطرت میں یہ تمیز رکھ دی۔ پھر انبیاء و رسل اور کتابوں کے ذریعے بھی سب کچھ سمجھا دیا، اور اسے اختیار دے دیا کہ جونسی راہ وہ چاہے اختیار کرلے۔ پھر جو راہ بھی اختیار کرے اللہ تعالیٰ اسی راستے کو اس کے لئے آسان بنا دیتا ہے اور اس کی توفیق عطا فرماتا جاتا ہے۔