أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا
زندوں کو اور مردوں کو۔
[١٦] کفاتا کا لغوی مفہوم :۔ کِفَاتًا : کَفَتَ بمعنی کسی چیز کو جمع کرکے اسے اپنے قبضہ میں لے لینا، سنبھال لینا، سمیٹ لینا اور کَفِیْت بمعنی توشہ دان جس میں خوراک اور سامان خوراک سنبھال کر رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کی زندگی اور موت اور پھر دوبارہ زندگی زمین ہی سے وابستہ ہے۔ انسان زمین یا مٹی سے پیدا کیا گیا اور یہ بے جان چیز ہے۔ پھر انسان نے زمین سے پیدا ہونے والی بے جان اشیاء کھائیں جو اس کی زندگی کی بقاء کا ذریعہ بنیں۔ پھر انہی بے جان غذاؤں سے اس کا نطفہ بنا جس میں زندگی کے آثار تھے۔ پھر اسی نطفہ سے انسان کو بنایا گیا پھر مرنے کے بعد انسان مٹی میں چلا جاتا ہے۔ اور مرنے والے خواہ لاکھوں کی تعداد میں ہوں زمین ان کو اپنے اندر محفوظ کرلیتی ہے۔ گویا یہی زمین زندہ انسانوں کو بھی سنبھالے ہوئے ہے اور مردوں کو بھی اپنے اندر سے خارج نہیں کردیتی بلکہ سنبھالے رکھتی ہے۔ پھر جب اللہ چاہے گا تو انہیں مردہ انسانوں کو نکال باہر کرے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس کے اندر سے نباتات اگ کر باہر نکل آتی ہے۔