فَلْيُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۚ وَمَن يُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيُقْتَلْ أَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
پس لازم ہے کہ اللہ کے راستے میں وہ لوگ لڑیں جو دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے بیچتے ہیں اور جو شخص اللہ کے راستے میں لڑے، پھر قتل کردیا جائے، یا غالب آجائے تو ہم جلد ہی اسے بہت بڑا اجر دیں گے۔
[١٠٣] اس آیت میں مسلمانوں کو محض اللہ کی رضا اور اسلام کی سربلندی کی خاطر لڑنے کی ترغیب دی جا رہی ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسلمان خواہ لڑائی میں شہید ہوجائے یا بچ کر گھر واپس آ جائے اسے دونوں صورتوں میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔جہادکی ترغیب‘اہمیت اور فوائد:۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’کوئی شخص مال غنیمت کے لیے لڑتا ہے، کوئی شہرت اور ناموری کے لیے اور کوئی اپنی بہادری دکھانے کے لیے لڑتا ہے اور کوئی غصے اور قومی حمیت کی وجہ سے لڑتا ہے۔ ان میں سے کون اللہ کی راہ میں لڑتا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی راہ میں لڑنے والا صرف وہ ہے جس کا مقصد یہ ہو کہ اس سے اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ ‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا۔۔ مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا فھو فی سبیل اللہ۔۔ بخاری۔ کتاب العلم۔ باب من سأال و ہو قائم عالما جالسا) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اس حال میں مرے کہ نہ اس نے اللہ کے راستے میں جنگ کی اور نہ ہی کبھی اس کے دل میں اس کا خیال گزرا ہو تو اس کی موت نفاق کی ایک شاخ پر ہوگی۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب ذم من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو) ٣۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ’’لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟‘‘ فرمایا ’’جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب افضل الناس مومن مجاھد بنفسہ و مالہ) ٤۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر میری امت پر یہ بات گرانبار نہ ہوتی تو میں کسی لشکر سے پیچھے نہ رہتا اور میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں۔‘‘ (بخاری، کتاب الایمان، باب الجہاد من الایمان۔۔ مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب فضل الجہاد) ٥۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جنت میں سو درجے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے (بلندی درجات کے حساب سے) مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے تیار کیا ہے اور ہر درجے میں اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان فاصلہ ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ۔۔ مسلم، کتاب الامارۃ۔ باب بیان ما اعد اللہ تعالیٰ للمجاہد فی الجنۃ من الدرجات) ٦۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس بندے کے قدم اللہ کی راہ میں غبار آلود ہوں تو یہ نہیں ہوسکتا کہ پھر اسے آگ چھوئے‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب من اغبرت قد ماہ فی سبیل اللہ) ٧۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خوب جان لو! جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الجنۃ تحت بارقۃ السیوف) ٨۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کی راہ میں ایک صبح یا ایک شام نکلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الجہاد۔ باب الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ مسلم، کتاب الامارۃ فضل الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ ) ٩۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص اللہ کی راہ میں خالصتاً جہاد کرنے کی نیت سے اپنے گھر سے نکلے اور اللہ کے ارشادات کا اسے یقین ہو تو اللہ اسے یا تو شہادت کا درجہ دے کر جنت میں داخل کرے گا یا ثواب اور مال غنیمت دلا کر بخیر و عافیت اسے اس کے گھر لوٹائے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب التوحید باب ولقد سبقت کلمتنا۔۔)