فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا
پس اپنے رب کے فیصلے تک صبر کر اور ان میں سے کسی گناہ گار یا بہت ناشکرے کا کہنا مت مان۔
[٢٨] کچھ کافر تو وہ تھے جو قرآن پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر مختلف قسم کے اعتراضات جڑ رہے تھے اور کچھ وہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لالچ دے کر مداہنت اور سمجھوتہ کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ ان میں عتبہ بن ربیعہ کا نام بالخصوص قابل ذکر ہے۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کی ریاست چاہتے ہیں یا مال و دولت یا کسی حسین لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات منظور ہوگی بشرطیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کام سے باز آجائیں۔ جس کی وجہ سے قریبی رشتہ داروں میں پھوٹ پڑگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول کو سمجھایا کہ ان میں سے کسی کی بات کو بھی تسلیم نہ کیجیے۔ نہ ان سے بحث میں الجھیے۔ صبر کیجیے اور صبر کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیے۔ اپنی منزل کھوٹی نہ کیجیے۔