سورة الإنسان - آیت 2

إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا، ہم اسے آزماتے ہیں، سو ہم نے اسے خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا بنا دیا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢] یعنی باپ کا نطفہ الگ تھا، ماں کا الگ، ان دونوں نطفوں کے ملاپ سے ماں کے رحم میں حمل قرار پایا۔ پھر ہم نے اس مخلوط نطفہ کو ایک ہی حالت میں پڑا نہیں رہنے دیا۔ ورنہ وہ وہیں گل سڑ جاتا۔ بلکہ ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے اور رحم مادر میں اس نطفہ کو کئی اطوار سے گزار کر اسے ایک جیتا جاگتا انسان بنا دیا۔ [٣] انسان کی دوسرے جانداروں پر کیا فضیلت ہے؟:۔ انسان کے علاوہ جتنی بھی جاندار مخلوق ہے۔ تقریباً سب ہی سنتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیں۔ لیکن سمیع اور بصیر نہیں ہیں۔ سمیع اور بصیر صرف انسان ہے۔ اور یہی چیزیں انسان کے لئے علم کے حصول کے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔ انسان اشیاء کو دیکھ کر اور بعض آوازیں سن کر ان پر غور کرتا، ان میں قیاس اور استنباط کرتا پھر ان سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ جبکہ دوسرے جاندار دیکھنے اور سننے کے باوجود ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کرسکتے۔