سورة القيامة - آیت 17

إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلاشبہ اس کو جمع کرنا اور ( آپ کا) اس کو پڑھنا ہمارے ذمے ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢] آیت نمبر ١٦ سے لے کر ١٩ تک چار آیات درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر آئی ہیں ان کی تفسیر کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب سیدنا جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی لے کر آتے تو آپ زبان اور لب ہلاتے رہتے (کہ کہیں بھول نہ جائے) اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہت سختی ہوجاتی جو دوسروں کو بھی معلوم ہوجاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں یعنی وحی کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں جما دینا (یاد کرا دینا) ہمارے ذمہ ہے اور اس کا پڑھا دینا بھی۔ تو جب ہم پڑھ چکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسی طرح پڑھیں جیسے ہم نے پڑھا تھا اور جب تک وحی اترتی رہے۔ خاموش سنتے رہیں۔ پھر وحی کے الفاظ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر رواں کردینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔ چنانچہ ان آیات کے نزول کے بعد جب جبریل آتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہتے اور جب چلے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح پڑھ کر سنا دیتے جس طرح اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنایا ہوتا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر، نیز باب کیف کان بدء الوحی الٰی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کا بیان کیا چیز ہے؟ ان آیات سے کئی اہم امور پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً یہ کہ اللہ نے صرف قرآن ہی نازل نہیں فرمایا بلکہ قرآن کا بیان بھی نازل فرمایا ہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح اللہ نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ اس کے بیان کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کا بیان ہے کیا چیز؟ تو واضح رہے کہ محض قرآن کے الفاظ کو دہرا دینے کا نام بیان نہیں بلکہ بیان میں ان قرآنی الفاظ کا مفہوم بتانا، اس کی شرح و تفسیر، اس کی حکمت عملی اور طریق بتانا سب کچھ شامل ہے۔ قرآن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے نازل کرنے والے یعنی اللہ تعالیٰ اور جس پر نازل ہوا ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے نزدیک قرآن کے الفاظ کا مفہوم متعین ہو اور وہ ایک ہی ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ زید (متکلم) بکر (مخاطب) سے کہتا ہے کہ :’’ پانی لاؤ‘‘ تو بکر زید کے حکم کی تعمیل اسی صورت میں کرسکے گا کہ متکلم اور مخاطب دونوں کے ذہن میں ''پانی'' اور ''لاؤ'' دونوں الفاظ کا مفہوم متعین ہو اور وہ ایک ہی ہو۔ ورنہ بکر زید کے حکم کی تعمیل کرنے سے قاصر رہے گا۔ مثلاً اگر زید کوئی ذومعنی لفظ بولے گا تو جب تک اس کی مزید وضاحت نہ کرے گا یا اگر زید کا مخاطب کوئی ایسا شخص ہوگا جو اردو سمجھتا ہی نہیں تو بکر زید کے حکم کی بجا آوری کی خواہش رکھنے کے باوجود اس پر عمل نہ کرسکے گا اور سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کے الفاظ ہی نازل نہیں فرمائے بلکہ ان الفاظ کا مفہوم (بیان) بھی مخاطب (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن میں القاء کردیا۔ یہ بیان بھی امت کو بتلانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری تھی۔ (٤٤: ١٦) اب اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودہ بیان یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آزاد ہو کر محض لغت کی رو سے قرآن کے الفاظ کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کو مندرجہ ذیل چار وجوہ کی بنا پر ناکامی ہوگی : سنت سے بے نیاز ہو کر قرآن پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والوں کی ناکامی کی چار وجوہ :۔ اولاً: بعض الفاظ کا مفہوم متعین کرنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ لغت میں ایک لفظ کے بہت سے معنی درج ہوتے ہیں۔ مثلاً لفظ صلوٰۃ کے معنی نماز، برکت، رحمت اور نماز، نماز جنازہ تو ایسے ہیں جن کی آیات سے بھی تائید ہوتی ہے۔ مگر نماز کی ادائیگی کرنے کے لیے، وضو، تیمم، مساجد، قبلہ رخ ہونا، رکوع، سجود وغیرہ کا ذکر بھی آیا۔ لہٰذا مندرجہ بالا معنی میں سے کوئی بھی اس کا صحیح مفہوم ادا نہیں کرتا۔ پھر لغت میں مصلی کے معنی وہ گھوڑا بھی ہے جو گھڑ دوڑ میں اول نمبر آنے والے گھوڑے کے پیچھے پیچھے دوسرے نمبر پر آیا ہو۔ علاوہ ازیں صلوٰۃ کے معنی ''کولھے ہلانا'' بھی ہے۔ چنانچہ بعض منچلوں نے صلٰوۃ کی ادائیگی سے ''پریڈ'' کرنا مفہوم لیا اور بعض دوسروں نے رقص و سرود کی مجالس منعقد کرنا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ سب مفہوم شریعت کی رو سے غلط ہیں۔ اور اس کی وجوہ وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئیں۔ ثانیاً: ہر زبان میں بعض الفاظ بطور اصطلاح مروج ہوتے ہیں جنہیں اہل زبان خوب جانتے ہیں۔ مثلاً لفظ ''اخبار'' کا لغوی معنی محض ''خبریں'' ہے مگر اس کا اصطلاحی مفہوم وہ پرچہ (Newspaper) جس میں خبروں کے علاوہ اور بھی بہت کچھ درج ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ اصطلاحیں فنی اور تکنیکی ہوتی ہیں۔ جنہیں صرف اہل علم و فن ہی جانتے ہیں۔ لغت چونکہ ''زبان'' کے الفاظ کے معنی بیان کرتی ہے لہٰذا ایسی اصطلاحات کا مفہوم بیان کرنا اس کے دائرہ سے خارج ہوتا ہے اور ایسی اصطلاحات کے لئے الگ کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ مثلاً خبر واحد، طول بلد، سرایت حرارت، کشش ثقل وغیرہ وغیرہ ایسی اصطلاحات ہیں جن کے مفہوم کو عام اہل زبان نہیں جانتے۔ قرآن چونکہ علوم شرعیہ کا منبع ہے لہٰذا اس میں بے شمار ایسی اصطلاحات مثلاً دین، الٰہ، عبادت، صلوٰۃ، زکوٰۃ، معروف، منکر، حج، عمرہ، آخرت وغیرہ استعمال ہوئی ہیں۔ ایسی اصطلاحات کا مفہوم متعین کرنا بھی اللہ اور اس کے رسول کا کام ہے۔ شرعی اصطلاحات کا جو مفہوم اللہ اور اس کے رسول نے بیان کیا ہو وہی قرآن کا بیان کہلاتا ہے اور یہی بیان امت کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ قرآن کے بیان کی حفاظت کے بغیر صرف قرآن کے الفاظ کی حفاظت بے معنی ہے :۔ ثالثاً محاورات مقامی طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ جو یا تو اہل زبان سے سیکھنا پڑتے ہیں یا کسی محاورات کی کتاب سے دیکھنا ہوں گے۔ لکھنؤ میں ایک ڈاکٹر صاحب کو اس کا دوست ملنے گیا جو اس علاقہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ ڈاکٹر کے کلینک میں ایک مریض آیا اور کہنے لگا : میں نے آج رات تین بار زمین دیکھی ہے۔ ڈاکٹر نے مریض کی شکایت سن کر دوا دے دی اور وہ چلا گیا بعد میں وہ دوست ڈاکٹر سے کہنے لگا، میں نہیں سمجھ سکا کہ مریض نے کیا تکلیف بیان کی تھی جس کی آپ نے دوا دی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ زمین دیکھنا سے یہاں ''قے کرنا'' مراد لیا جاتا ہے اور میں نے اس مرض کی دوا دی تھی۔ سنت کا منکر قرآن کا بھی منکر ہے :۔ رابعاً: بعض دفعہ ایک لفظ کسی خاص معنی میں مشہور ہوجاتا ہے جبکہ لغوی لحاظ سے اس میں اختلاف کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ اندریں صورت صرف عرف کا لحاظ رکھا جائے گا۔ مثلاً ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مراد عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی ہوں گے حالانکہ لغوی لحاظ سے ان کے دوسرے بیٹے فضیل کو بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنا درست ہے۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ سے مراد صرف بیت المقدس ہی لیا جائے گا نہ کہ دور کی کوئی مسجد جیسا کہ منکرین معجزات واقعہ اسراء کی تاویل میں مسجد اقصیٰ سے مراد بیت المقدس نہیں لیتے بلکہ کوئی بھی دور کی مسجد مراد لے لینا ان کے نزدیک درست ہے۔ مندرجہ بالا تصریحات سے تین نتائج سامنے آتے ہیں : ١۔ اللہ نے صرف قرآن کے الفاظ کی ہی حفاظت کا ذمہ نہیں لے رکھا بلکہ قرآن کے بیان کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ کیونکہ اگر قرآن کے بیان کی حفاظت نہ کی جائے تو الفاظ کی حفاظت کوئی معنی نہیں رکھتی اور قرآن بچوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ ٢۔ واجب الاتباع ہونے کے لحاظ سے قرآن اور قرآن کے بیان یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی فرق نہیں اور ٣۔ قرآن کا بیان یا تشریح و تفسیر وہی قابل اعتماد ہوسکتی ہے جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی ہو۔