وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ ۖ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولَٰئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا
اور یہ کہ بے شک ہم میں سے کچھ فرماں بردار ہیں اور ہم میں سے کچھ ظالم ہیں، پھر جو فرماں بردار ہوگیا تو وہی ہیں جنھوں نے سیدھے راستے کا قصد کیا۔
[١٢] تَحَرَّوْا۔ اَحرٰی بمعنی لائق تر اور تَحَرَّی بمعنی زیادہ مناسب اور لائق تر چیز کو طلب کرنا۔ دو چیزوں میں سے زیادہ بہتر کو طلب کرنا۔ یعنی ایمان لانے والے جن اپنی قوم میں واپس آکر انہیں سمجھا رہے ہیں کہ بلا شبہ ہم میں سے کچھ فرمانبردار ہیں اور کچھ نافرمان اور بے راہ رو بھی ہیں۔ اور حق بات یہی ہے کہ جو لوگ اسلام لے آئے انہوں نے عقلمندی کی۔ ہدایت کی راہ کو پسند کرلینا ہی ان کے بہتر انتخاب کی دلیل ہے۔ کیونکہ جو لوگ اس سیدھی راہ کے علاوہ کوئی اور راہیں اختیار کریں گے وہ گھاٹے میں ہی رہیں گے اور جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اس مقام پر جنوں کی وہ تقریر یا وعظ و نصیحت ختم ہوجاتی ہے جو انہوں نے ایمان لانے کے بعد واپس آکر اپنے بھائی بندوں کو کی۔ چنانچہ بہت سے جن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئے پھر اس واقعہ کے بعد متعدد بار جن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔