قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا
کہہ دے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ بے شک جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر سنا تو انھوں نے کہا کہ بلاشبہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔
[١] اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چند اصحاب کے ساتھ عکاظ کے بازار جانے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ ان دنوں شیطانوں کو آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی تھی اور ان پر انگارے پھینکے جاتے تھے۔ وہ (زمین کی طرف) لوٹے اور (آپس میں) کہنے لگے۔ یہ کیا ہوگیا ؟ ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوگئی اور ہم پر انگارے پھینکے جاتے ہیں۔ ضرور کوئی نئی بات واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسمان کی خبر ملنا بند ہوئی ہے۔ اب یوں کرو کہ ساری زمین کے مشرق و مغرب میں پھر کر دیکھو کہ وہ کیا نئی بات واقع ہوئی ہے۔ ان میں سے کچھ شیطان تہامہ (حجاز) کی طرف بھی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نخلہ میں تھے اور عکاظ کے بازار جانے کا قصد رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب کو نماز فجر پڑھا رہے تھے جب ان جنوں نے قرآن سنا تو ادھر کان لگا دیا پھر کہنے لگے : یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے آسمان کی خبر ہم پر بند کردی گئی۔ پھر اس وقت وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور انہیں کہنے لگے ﴿یَا قَوْمَنَا انَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا۔۔ اَحَدًا﴾ اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ سورت نازل فرمائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنوں کی یہ گفتگو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) جنوں کا مختلف موقعوں پر قرآن سننا :۔ اس سے پیشتر سورۃ احقاف کی آیات ٢٩ تا ٣٢ میں بھی جنوں کے قرآن سننے کا ذکر گزر چکا ہے۔ لیکن قرآن کے ہی مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں۔ سورۃ احقاف میں بیان شدہ واقعہ کے مطابق سننے والے جن مشرک نہیں تھے بلکہ وہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر اور تورات پر ایمان رکھتے تھے پھر قرآن سننے کے بعد وہ جن قرآن پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایمان لے آئے تھے۔ جبکہ اس سورت میں جن جنوں کا ذکر آیا ہے یہ مشرک تھے۔ جنوں کے متعلق جو حقائق قرآن میں جا بجا مذکور ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے۔ (١) انسان کے علاوہ جن ہی ایسی مخلوق ہے جو شریعت کی مکلف ہے، (٢) جن ناری مخلوق ہے، جو تیز شعلہ یا آگ کی لپٹ سے پیدا کیے گئے ہیں جبکہ انسان خاکی مخلوق ہے، (٣) انسان کی پیدائش سے پہلے جن ہی اس زمین پر آباد تھے اور ان میں بھی نبوت کا سلسلہ جاری تھا۔ لیکن انسان کی تخلیق کے بعد نبوت کا سلسلہ سیدنا آدم علیہ السلام اور اس کی اولاد میں منتقل ہوگیا۔ اب جو نبی انسانوں کے لئے مبعوث ہوتا ہے وہی جنوں کے لئے بھی ہوتا ہے۔ جنوں کی صفات :۔ (٤) جن تو انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن انسان جنوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ اس سورۃ میں بھی جن جنوں کا ذکر آیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھا نہیں تھا بلکہ بعد میں وحی کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے قرآن سننے اور متاثر ہو کر ایمان لانے کی خبر دی گئی، (٥) جن بھی انسانوں کی ہی علاقائی زبانیں بولتے اور سمجھتے ہیں یہی وجہ تھی کہ جن قرآن سننے کے ساتھ ہی فوراً اسے سمجھ گئے اور ایمان لے آئے، (٦) انسان کی طرح ان میں بھی بعض نیک ہوتے ہیں، بعض بدکردار اور نافرمان۔ نیز جس قسم کے عقائد، اچھے ہوں یا برے، انسانوں میں پائے جاتے ہیں جنوں میں بھی پائے جاتے ہیں، (٧) بدکردار جنوں کو شیطان کہا جاتا ہے اور قرآن میں یہ الفاظ ان معنوں میں مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، (٨) انسانوں کی طرح ان میں بھی توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہے۔