سورة نوح - آیت 14

وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

حالانکہ یقیناً اس نے تمھیں مختلف حالتوں میں پیدا کیا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧] اطوار کا معنی : آدم اور بنی آدم پر گزرنے والے اطوار :۔ اَطْوَارًا۔ طَوْر کسی چیز کی ایسی حالت کو کہتے ہیں جو اندازہ کے مطابق کچھ مدت بعد تدریجی تبدیلی چاہتی ہو۔ اور تَطَوُّرٍ بمعنی ایک حالت سے دوسری یا اگلی حالت میں تبدیل ہونا۔ سوچا جائے تو انسان اطوار ہی کا مجموعہ اور مظہر ہے۔ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ تو سات اطوار سے گزارا (١) خشک مٹی، (٢) پھر اسے گیلی مٹی یا گارا بنایا گیا، (٣) پھر لیس دار یا چپک دار یا چیکنی مٹی بنایا گیا، (٤) پھر اس کا خمیر اٹھایا گیا حتیٰ کہ اس میں بدبو پیدا ہوگئی، (٥) پھر اسے خشک کیا گیا، (٦) پھر اسے حرارت سے پکایا گیا (٧) حتیٰ کہ وہ ٹن سے بجنے والی مٹی بن گئی۔ اس مٹی سے آدم کا پتلا بنایا گیا پھر اللہ نے اس میں روح پھونکی تو یہ صرف ایک جاندار مخلوق ہی نہیں بلکہ عقل و تمیز اور ارادہ واختیار رکھنے والی مخلوق بن گیا۔ پھر آگے اس کی نسل نطفہ سے چلائی گئی۔ زمین سے پیدا ہونے والی بے جان اشیاء انسان کی غذا بنیں۔ انہیں غذاؤں سے نطفہ بنا۔ یہی نطفہ جب رحم مادر میں حمل کی صورت میں قرار پا گیا تو وضع حمل تک اس پر سات اطوار آئے۔ تاآنکہ وہ ایک جیتا جاگتا باشعور انسان بن کر رحم مادر سے باہر آگیا۔ پھر اس پر ہر نیا دن ایک نیا طور ہے اور ان تمام اطوار پر ہمہ وقتی اور ہمہ گیر تصرف صرف اللہ کو حاصل ہے۔ ان سب باتوں کو جاننے کے باوجود تم نے جو اللہ کو بے وقار سمجھ رکھا ہے تو یہ کس قدر ظلم کی بات ہے۔؟