تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ
فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں، ( وہ عذاب) ایک ایسے دن میں (ہوگا) جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے۔
[٣] لفظ یوم کی مختلف مدتیں :۔ یوم یعنی دن۔ یعنی غروب آفتاب سے لے کر اگلے دن کے غروب آفتاب تک کا وقت۔ لیل اور نہار کے وقت کا مجموعہ یا ٢٤ گھنٹے کی مدت۔ اور یوم کی یہ مدت ہم اہل زمین کے لئے ہے۔ چاند پر یہ یوم ہمارے حساب سے تقریباً ایک ماہ کا ہے۔ عطارد (Mercury) پر یہ دن ہمارے ٨٨ دنوں کے برابر ہے۔ قطب شمالی اور جنوبی پر تقریباً ایک سال کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا تو یہاں دن سے مراد مدت کا ایک طویل دور ہے جو ہمارے حساب سے لاکھوں سال کا بھی ہوسکتا ہے۔ قرآن میں ایک مقام پر یوم کی مقدار ایک ہزار سال بتائی گئی ہے۔ (٢٢: ٤٧) اس مقام پر مجرم قوموں پر دنیا میں عذاب آنے کا ذکر ہے۔ اور اس مقام پر یوم کی مقدار پچاس ہزا رسال بتائی گئی ہے۔ رہی یہ بات کہ جبریل امین یا دوسرے فرشتے یا نیک لوگوں کی ارواح اس بلندیوں کے مالک تک پچاس ہزار سال میں چڑھتے ہیں۔ تو یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کیونکہ یہ بات خالصتاً صفات الٰہی سے تعلق رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کون سی اسکیم یا منصوبہ کی تکمیل کے بعد فرشتے اور جبریل امین اس کی طرف اتنی مدت میں چڑھتے ہیں؟ اس کی جو بھی صورت پیش کریں گے وہ ناقص ہی ہوگی۔ اس کا ٹھیک مطلب اللہ ہی جانتا ہے۔ البتہ احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے دن کی مدت پچاس ہزار سال ہوگی۔ یہی وہ دن ہوگا جس میں کافروں کو یقیناً عذاب دیا جائے گا۔ یہ عذاب بلندیوں کے مالک کی طرف سے ہوگا اور کوئی طاقت کافروں کو اس عذاب سے بچا نہ سکے گی۔