وَالْمَلَكُ عَلَىٰ أَرْجَائِهَا ۚ وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ
اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور تیرے رب کا عرش اس دن آٹھ (فرشتے) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔
[١٣] یعنی اس وقت اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کی تعداد چار ہے۔ اس دن آٹھ فرشتے اس عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ یہ عرش کتنا بڑا ہے اس کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ زمین کو پہلا آسمان محیط ہے۔ دوسرا آسمان پہلے سے بڑا اور اس کو محیط ہے۔ علی ہذا القیاس ساتواں آسمان چھٹے کو محیط ہے۔ پھر اس کے اوپر آٹھواں آسمان ہے جسے کرسی بھی کہتے ہیں اور فلک افلاک بھی۔ پھر اس کے اوپر اللہ کا عرش ہے جیسے محیط ہونے کے لحاظ سے نواں آسمان کہہ لیجئے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اتنی بڑائی کے باوجود اللہ کا عرش اللہ سے بہرحال چھوٹا ہے اور اکبر اللہ ہی ہے۔ رہی یہ بات کہ فرشتے اللہ کے عرش کو آج کیسے اٹھائے ہوئے ہیں اور اس دن ان کی تعداد دوگنی کیوں کردی جائے گی؟ تو ان باتوں کے لئے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم صرف اتنی بات پر ایمان لاتے ہیں جو اللہ نے واضح طور پر خود بتلا دی ہے۔ نہ اس میں کچھ کمی کرنے کی ضرورت ہے اور نہ اضافہ کی اور نہ کسی قسم کی تاویل کرنے کی۔ اور یہ سب کچھ نفخۂ صور ثانی کے بعد ہوگا۔ جب تمام لوگ اپنی قبروں سے زندہ اٹھ کھڑے ہوں گے اور میدان محشر میں محاسبہ کے لئے جمع ہوں گے اس وقت اللہ تعالیٰ نزول اجلال فرمائیں گے۔