كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَةِ
ثمود اور عاد نے اس کھٹکھٹانے والی (قیامت) کو جھٹلادیا۔
[٢] قَارِعۃٌ: قَرَعَ بمعنی ایک چیز کو دوسری پر اس طرح مارنا کہ اس سے آواز پیدا ہو۔ اور قرع الباب بمعنی اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور قارِعَۃٌ کے معنی کھڑکھڑانے والی، اور ابن الفارس کے نزدیک قارِعَۃٌ ہر وہ چیز ہے جو انسان پر شدت کے ساتھ نازل ہو۔ نیز قارِعَۃٌ قیامت کا صفاتی نام ہے۔ یعنی اس دن کائنات کی چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر کئی طرح کی آوازیں پیدا کریں گی۔ [٣] یعنی قیامت یا آخرت کا معاملہ اتنا ہی نہیں کہ کوئی مانتا ہے تو مان لے نہیں مانتا تو نہ مانے۔ قیامت آئے گی تو پتہ چل جائے گا کہ آتی ہے یا نہیں آتی۔ بلکہ اس کا فوری اثر اس دنیا میں ہی ظاہر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کا تصور ہی ایسا موثر ذریعہ ہے کہ جو انسان کو، افراد کو اور اقوام کو اخلاقی پستیوں میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔ جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا' ان کے اخلاق بگڑ گئے وہ ظلم و جور میں مبتلا ہوگئیں۔ بالآخر اللہ کا عذاب آیا جس نے انہیں نیست و نابود کردیا۔