وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ
اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا یقیناً قریب ہیں کہ تجھے اپنی نظروں سے (گھور گھور کر) ضرور ہی پھسلا دیں، جب وہ ذکر کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یقیناً یہ تو دیوانہ ہے۔
[٢٨] یعنی جب آپ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے ہیں تو وہ آپ کو یوں گھورنے لگتے ہیں اور آپ پر اپنی نظریں گاڑ کر ایسا مقناطیسی اثر ڈالنا چاہتے ہیں۔ جس سے آپ مرعوب ہو کر یہ کام چھوڑ دیں۔ پھر بڑی حقارت کے ساتھ دوسروں کو بتاتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ آدمی ہے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیوانہ اس لیے کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عقل اور ان کے عقیدہ کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ پھر صرف آپ کی قوم نے ہی آپ کو مجنون نہیں کہا بلکہ ہر رسول کو دیوانہ کہا جاتا رہا ہے۔ اور یہ دراصل قوم کے اپنے رسولوں کے خلاف معاندانہ رویہ کے اظہار کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک نبی اور ایک مجنون میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نبی کی دعوت گو معاشرہ کی عقل اور دستور کے خلاف ہوتی ہے۔ تاہم وہ ہمیشہ اپنی ذات پر قائم رہتا، اس پر عمل کرکے دکھاتا اور اپنی پاکیزہ سیرت و کردار سے اپنی بات پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ جبکہ مجنون ان تینوں باتوں سے عاری ہوتا ہے۔