سورة القلم - آیت 18

وَلَا يَسْتَثْنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ کوئی استثنا نہیں کر رہے تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٥] باغ والوں کا قصہ :۔ یہ واقعہ آیت نمبر ١٧ سے آیت نمبر ٣٣ تک پھیلا ہوا ہے۔ جسے ہم تسلسل کے ساتھ اپنے الفاظ میں بیان کریں گے کسی شخص کا ایک باغ تھا جو بھرپور فصل دیتا تھا۔ اس شخص کا زندگی بھر یہ دستور رہاکہ جب بھی پھل کی فصل اٹھاتا تو اس کے تین حصے کرتا۔ ایک حصہ تو خود اپنے گھر کی ضروریات کے لیے رکھ لیتا۔ دوسرا حصہ اپنے قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں میں تقسیم کردیتا اور تیسرا حصہ فقراء و مساکین میں بانٹ دیتا۔ اس کی اس سخاوت کی وجہ سے اس کا باغ سب سے زیادہ فصل دیتا۔ کٹائی کے دن فقراء و مساکین موقع پر پہنچ جاتے اور اپنا اپنا حصہ وصول کرلیتے۔ جب یہ شخص انتقال کر گیا تو اس کے بیٹوں کو خیال آیا کہ ہمارا باپ تو ساری عمر اس باغ کی فصل کو ادھر ادھر تقسیم کرکے اپنی کمائی یوں ہی لٹاتا رہا اور زندگی بھر مفلس ہی رہا۔ اب کے یہ ریت ختم کردینا چاہیے۔ باغ ہمارا ہے اور اس پر ہمارا ہی حق ہے چنانچہ انہوں نے آپس میں یہ طے کرلیا کہ جب کٹائی کا موقع آئے تو راتوں رات ہی کرلی جائے۔ تاکہ نہ غریب مسکین آئیں، نہ ہمیں تنگ کریں اور نہ ہم برے بنیں۔ انہوں نے اس بات پر قسمیں کھائیں کہ ایسا ہی کریں گے اور انہیں اپنی اسکیم پر اس قدر وثوق تھا کہ انہوں نے انشاء اللہ کہنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔ جب کٹائی کا وقت آگیا تو وہ راتوں رات، خوشی خوشی، اچھلتے کودتے اپنے باغ کی طرف روانہ ہوئے ادھر اللہ کا کرنا یوں ہوا کہ اسی رات سخت آندھی کا طوفان آیا۔ جس میں آگ تھی۔ آندھی کے ذریعہ وہ آگ باغ کے درختوں تک پہنچ گئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں انہیں جلا کر راکھ کرگئی۔ آن کی آن میں سارا باغ جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ جب یہ عقل مند بیٹے وہاں پہنچے تو وہاں نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ انہیں وہاں باغ نام کی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ سوچنے لگے کہ ہم شائد رات کے اندھیرے میں کسی غلط جگہ پر پہنچ گئے۔ پھر جب کچھ حواس درست ہوئے تو حقیقت ان پر آشکار ہوگئی کہ ان کی نیت کا فتور آندھی کا عذاب بن کر ان کے باغ کو بھسم کر گیا ہے۔ اب وہ ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ ان کے منجھلے بھائی نے کہا کیا میں نے تمہیں کہا نہ تھا کہ اللہ کی تسبیح بیان کرو۔ اسے ہر وقت یاد رکھو اور اسی سے خیر مانگو۔ مگر ان بھائیوں میں سے کسی نے بھی منجھلے بھائی کی طرف توجہ نہ دی تو ناچار اسے بھی ان کا ساتھ دینا پڑا۔ اور وہ ملامت بھی اس طرح کرتے تھے کہ ایک دوسرے کو کہتا کہ تم ہی نے یہ ترغیب دی تھی دوسرا کہتا کہ یہ مشورہ تو تمہارا تھا مگر اب پچھتانے سے کچھ بن نہ سکتا تھا۔ جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔ باپ کو اس کی سخاوت اور دوسروں سے ہمدردی کا یہ صلہ ملتا رہا کہ اسی کا باغ سب سے زیادہ پھل لاتا تھا اور جتنا کچھ وہ دوسروں پر خرچ کرتا۔ اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ اسے مہیا فرماتا۔ مگر جب بیٹوں پر بخل اور حرص غالب آئی تو اس کا ثمرہ یوں ملا کہ نیت کے فتور نے مجسم طوفان کا روپ دھار کر سارا باغ ملیا میٹ کردیا۔ اس وقت نہ زمین کی زرخیزی کام آئی، نہ ان کی کوئی تدبیر، اس واقعہ سے یہ بات از خود واضح ہوجاتی ہے کہ دوسروں سے ہمدردی اور اچھے سلوک کی بنا پر اگر اللہ تعالیٰ نادیدنی وسائل کے ذریعہ رزق فراہم کرسکتا ہے تو نیت میں فتور آنے پر ایسے ہی نادیدنی وسائل سے دیئے ہوئے رزق کو چھین بھی سکتا ہے۔ آخر سب مل کر کہنے لگے کہ واقعی ہماری سب کی زیادتی تھی کہ ہم نے فقیروں اور محتاجوں کا حق مارنا چاہا اور حرص و طمع میں آکر اصل بھی کھو بیٹھے۔ یہ جو کچھ خرابی آئی اس میں ہم ہی قصور وار ہیں۔ مگر اب بھی ہم اپنے پروردگار سے ناامید نہیں کیا عجیب ہے کہ وہ اپنی رحمت سے پہلے باغ سے بہتر باغ ہم کو عطا کردے۔