سورة القلم - آیت 6

بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہ تم میں سے کون فتنے میں ڈالا ہوا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦] یعنی یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا نتیجہ جلد از جلد سامنے نہ آئے۔ ایک شخص جو حکم دیتا ہے وہ نیکی اور بھلائی پر مبنی ہوتا ہے پھر وہ خود سب سے پہلے اس حکم پر عمل کرکے دکھاتا ہے۔ ہر برے کام سے اسے طبعاً نفرت ہے۔ وہ انتقام کی صورت میں بھی کوئی بری بات اپنانے کو تیار نہیں۔ فیاضی اور سماحت اس کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس کے مقابلہ میں جو لوگ ہیں انہیں طعن و تشنیع، ایذارسانی اور انتقامی کارروائیوں کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں، جو بات وہ سوچتے ہیں بغض و عناد اور دوسروں کی جڑ کاٹ دینے کے لیے سوچتے ہیں۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ جلد از جلد ان دونوں کا انجام ایک دوسرے کے سامنے نہ آجائے۔ اس وقت ہر ایک کو معلوم ہوجائے گا کہ دیوانگی اور پاگل پن کی حرکتیں کون کر رہا تھا ؟