سورة القلم - آیت 1

ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

ن۔ قسم ہے قلم کی! اور اس کی جو وہ لکھتے ہیں!

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] بعض لوگوں کے نزدیک ''ن'' سے مراد دوات ہے اور اس قیاس کی بنیاد یہ ہے کہ قلم اور دوات کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ [٢] اس کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں ایک تو وہی ہے جو درج ذیل حدیث میں مذکور ہے : ولید بن عبادہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے کہا ''لکھ'' چنانچہ قلم نے وہ سب کچھ لکھ دیا جو ابد تک ہونے والا تھا۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اس حدیث کے مطابق لکھنے والی قلم خود ہی ہے۔ یا ممکن ہے کہ اس قلم سے لکھنے والے اللہ کے فرشتے ہوں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قلم اور ان فرشتوں کی قسم جو لوح محفوظ سے قرآن نقل کرتے ہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے جو نزول قرآن کے بعد ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قسم جو قرآن کی وحی کو قلم سے لکھتے ہیں اور چوتھا مطلب یہ ہے کہ ان مورخین کی قسم جو قلم کے ساتھ بڑے بڑے مصلحین کی داستان حیات تاریخ کے اوراق میں ثبت کرتے ہیں۔