عَسَىٰ رَبُّهُ إِن طَلَّقَكُنَّ أَن يُبْدِلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنكُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُّؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَيِّبَاتٍ وَأَبْكَارًا
اس کا رب قریب ہے، اگر وہ تمھیں طلاق دے دے کہ تمھارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں دے دے، جو اسلام والیاں، ایمان والیاں، اطاعت کرنے والیاں، توبہ کرنے والیاں، عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں ہوں، شوہر دیدہ اور کنواریاں ہوں۔
[٧] سیدہ عائشہ اور حفصہ پر عتاب :۔ ان دونوں ازواج مطہرات کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر توبہ کرلو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اور نبی کو ستانا چھوڑ دو۔ زوجین کے خانگی معاملات بعض دفعہ ابتدائ ً بالکل معمولی سے معلوم ہوتے ہیں لیکن اگر ذرا باگ ڈھیلی چھوڑ دی جائے تو نہایت خطرناک اور تباہ کن صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ خصوصاً عورت اگر کسی اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو اس کو طبعاً اپنے باپ، بھائی اور خاندان پر ناز ہوتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عورت کی اس فطرت کو خوب سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہی دنوں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور کہنے لگے : بیٹی! کیا بات ہے تو رسول اللہ سے سوال و جواب کرتی رہتی ہے حتیٰ کہ وہ سارا دن غصہ میں رہتے ہیں۔ سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا : واللہ! ہم تو سوال و جواب کرتی رہتی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : خوب سمجھ لے اور میں تجھے اللہ کی سزا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے سے ڈراتا ہوں۔ بیٹی! تو اس عورت کی وجہ سے دھوکا مت کھانا جو اپنے حسن و جمال اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر نازاں ہے اور اس سے ان کی مراد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ تحریم) اسی لئے ان دونوں کو اللہ تعالیٰ نے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ایکا کرکے اسی طرح کی کارروائیاں اور مظاہرے کرتی رہیں تو اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود، اس کے فرشتے جبرئیل علیہ السلام اور نیک بخت ایماندار سب درجہ بدرجہ اس کے مددگار ہیں اور ان کے سامنے تمہاری کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی۔ [٨] آپ کی ازواج کا خرچ کے سلسلہ میں آپ کو پریشان کرنا :۔ پہلے دو بیویوں (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی بات چل رہی تھی، اس آیت میں سب بیویوں کو خطاب کرکے ان پر عتاب کیا جارہا ہے۔ ایک حلال چیز کو حرام قراردینے کے معاملہ میں تو واقعی صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا تعلق تھا۔ لیکن ایک اور معاملہ بھی تھا۔ جس کا سب بیویوں سے تعلق تھا۔ وہ یہ تھا کہ فتوحات خیبر اور اموال غنائم سے مسلمانوں کی معاشی حالت آسودہ ہوگئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر کا خرچ زیادہ لینے کا مطالبہ کردیا۔ اور اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں نہ ہوتیں بلکہ عام عورتیں ہوتیں تو ایسے مطالبہ میں ان کا کچھ قصور بھی نہ تھا اور اگر آپ چاہتے تو انہیں اموال غنائم سے اپنے گھروں میں زیادہ دے بھی سکتے تھے اور اللہ نے آپ کو ایسا اختیار دے بھی رکھا تھا۔ مگر چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طبعاً فقر پسند تھا۔ لہٰذا بیویوں کا یہ مطالبہ آپ پر گراں گزرا۔ پھر بیویوں نے بھی اس بات کو صرف مطالبہ کی حد تک نہ رکھا بلکہ ایکا کرکے آپ سے بحث اور جھگڑا بھی کیا کرتی تھیں۔ اور بسا اوقات ایسی باہمی شکر رنجی میں پورا پورا دن گزر جاتا تھا۔ اسی کیفیت کا حال معلوم ہونے پر سیدنا عمررضی اللہ عنہ اپنی بیٹی کے ہاں گئے۔ اور انہیں سمجھایا اور کہا دیکھو تم اللہ کے رسول سے جھگڑنا چھوڑ دو۔ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر اپنے آپ کو گمان کرکے اس کی ریس نہ کرو اور نہ اس معاملہ میں دوسروں کا ساتھ دو۔ اور اگر کوئی چیز خرچہ وغیرہ مطلوب ہو تو اس کا مطالبہ مجھ سے کرلو۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے اور انہیں بھی یہی بات سمجھائی کیونکہ وہ بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رشتہ دار تھیں تو انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ٹکا سا جواب دیا اور کہنے لگیں تم کون ہوتے ہو ہمارے معاملات میں دخل دینے والے؟ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ مسکرا دیئے۔ انہیں ایام میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حالات کا جائزہ لے کر اس خیال کا اظہار کیا تھا جو درج ذیل حدیث میں مذکور ہے۔ اور یہی اس آیت کا شان نزول ہے : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکٹھی مل کر آپ سے لڑنے جھگڑنے لگیں تو میں نے انہیں کہا : ’’کچھ بعید نہیں کہ پیغمبرتم سب کو طلاق دے دے اور اس کا رب تم سے بہتر بیویاں بدل دے‘‘ اس وقت (جیسا میں نے کہا تھا ویسے ہی) یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) لیکن اس کے باوجود بھی جب ازواج مطہرات اپنے مطالبہ سے دستبردار نہ ہوئیں تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر شاق گزرا کہ آپ ایک ماہ کے لیے اپنی سب بیویوں سے الگ ہوگئے اور ایک بالا خانے میں جاکر مقیم ہوگئے۔ یہی واقعہ، واقعہ ایلاء کہلاتا ہے۔ جو سورۃ احزاب کی آیت نمبر ٢٨ اور ٢٩ کے حواشی میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ [٩] قَانِتَاتٌ۔ قنوت ایسی اطاعت کو کہتے ہیں جو پورے خشوع و خضوع یکسر توجہ اور دل کی رضا مندی سے بجا لائی جائے۔ اور یہ اطاعت اللہ کی بھی ہوسکتی ہے۔ اس کے رسول کی بھی (٣٣: ٣١) اور عورتوں کے لیے اپنے خاوندوں کی بھی (٤: ٣٤) اور اس آیت میں تینوں کی ہی اطاعت مراد ہے۔ [١٠] سائح اور صائم میں فرق :۔ سَائِحَاتٌ۔ ساح الماء بمعنی پانی کا آوارہ پھرنا اور ساحۃ بمعنی فراخ جگہ اور ساحۃ الدار بمعنی گھر کا آنگن اور ساح بمعنی سیروسیاحت کرنا یا کرتے پھرنا خواہ اس کا مقصد تفریح ہو یا کوئی اور ہو اور ان معنوں میں بھی قرآن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ (٩: ٢) اس لحاظ سے سائح کے معنی محض سیروسفر کرنے والا ہے۔ لیکن بعد میں یہ لفظ ایسے درویشوں کے لئے استعمال ہونے لگا جو چلتے پھرتے تھے۔ روزہ بھی رکھتے تھے اور جملہ حکمی پابندیوں کو بھی ملحوظ رکھتے تھے پھر یہ الفاظ ایسے روزہ داروں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا جو کھانے پینے کی بندش کے علاوہ اپنے جوارح یعنی آنکھ، کان اور زبان وغیرہ کو معاصی سے بچائے رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور صاحب منجد کے نزدیک ایسے روزہ دار کو کہتے ہیں جو زیادہ تر مسجد میں رہے۔ جبکہ صائم ہر روزہ دار کو کہہ سکتے ہیں۔ [١١] یعنی ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے کہا جارہا ہے کہ کہیں اس زعم میں مبتلا نہ ہوجانا کہ آخر مرد کو بیویوں کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے اور ہم سے بہتر عورتیں کہاں ہیں اس لیے ہم اگر دباؤ ڈالیں گی تو سب باتیں منظور کرلی جائیں گی۔ یادرکھو کہ اگر اللہ چاہے تو تم سے بہتر بیویاں اپنے نبی کو مہیا کر دے اور تمہیں رخصت کردیا جائے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ازواج مطہرات میں مذکورہ صفات موجود نہ تھیں۔ بلکہ یہ ہے کہ نبی کی بیویوں میں یہ صفات بدرجہ اتم ہونا چاہئیں اور ازواج مطہرات کا یہ مطالبہ صفت قانتات میں تقصیر ہونے کی وجہ سے تھا۔