سورة التحريم - آیت 1

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے نبی! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے؟ تو اپنی بیویوں کی خوشی چاہتا ہے، اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] آپ کا شہد نہ پینے پر قسم کھانا اور رازداری کی تلقین کرنا :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روز مرہ کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے بعد اپنے سب گھروں میں اپنی بیویوں کے ہاں چکر لگایا کرتے تھے۔ تاکہ گھریلو حالات سے پوری طرح باخبر رہیں اور خیروعافیت کی صورت معلوم ہوتی رہے۔ ایک دفعہ جب آپ سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد کا شربت پلایا۔ اس طرح آپ کو وہاں کچھ دیر لگ گئی۔ دوسرے دن بھی آپ کو سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے شربت پلایا اور چونکہ آپ کو شہد اور اس کا شربت بہت پسند تھا۔ لہٰذا یہ بھی ایک طرح سے روزمرہ کا معمول بن گیا کہ سیدنا زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں آپ کو کچھ دیر لگ جاتی تھی۔ یہ بات دوسری بیویوں اور بالخصوص سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو ناگوار گزری۔ کیونکہ آپ کی بیویوں میں سے ہر ایک یہی چاہتی تھی کہ وہی زیادہ تر آپ کی توجہات کا مرکز بنے۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی اس عادت ' یعنی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں شہد کا شربت پینے کی عادت کو چھڑانے کی یہ ترکیب سوچی۔ کہ آپ سے کہا جائے کہ آپ کے منہ سے تو مغافیر (ایک قسم کا گوند جس کی بو ناگوار ہوتی ہے) کی بو آتی ہے پھر جب ایک بیوی نے بھی یہی بات کہی اور دوسری نے بھی ایسی بات کہی تو آپ کو وہم ہونے لگا کہ شاید ایسی بدبو واقعی آرہی ہو اور آپ کو بدبودار چیزوں سے سخت نفرت بھی تھی۔ اور ان بیویوں کی دلجوئی بھی مقصود تھی۔ لہٰذا آپ نے قسم کھالی کہ میں آئندہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں سے شہد نہیں پیا کروں گا۔ امام بخاری نے مختصراً اس واقعہ کو یوں روایت کیا ہے : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرے رہتے اور شہد پیا کرتے تھے۔ میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپس میں طے کیا کہ ہم سے جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں، وہ یوں کہے : ’’کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغافیر کھایا ہے۔ مجھے تو آپ سے مغافیر کی بو آرہی ہے‘‘ (پھر ایسا ہی کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نہیں! بلکہ میں نے زینب بنت جحش (رضی اللہ عنہا) کے ہاں سے شہد پیا ہے۔ اب میں قسم کھاتا ہوں کہ آئندہ کبھی شہد نہ پیوں گا۔ اور تم یہ بات کسی کو مت بتانا‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ تحریم) حلال وحرام کا اختیار صرف اللہ کو ہے :۔ ضمناً اس آیت سے کئی اہم امور پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلاً: ١۔ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔ کسی نبی حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ اختیار نہ تھا کہ اپنی مرضی سے کسی چیز کو حلال یا حرام یا کسی حلال چیز کو حرام یا کسی حرام چیز کو حلال قرار دے دیں۔ ٢۔ رسول کی حیثیت عام لوگوں سے علیحدہ ہوتی ہے :۔ کسی انسان کا کسی مصلحت کی خاطر کسی حلال چیز کو اپنے لئے حرام قرار دے لینا، یا اسے کچھ عرصہ کے لئے ترک کردینا یا اسے چھوڑنے کی قسم کھا لینا بذات خود کوئی بڑا جرم نہیں ہے۔ جیسے بعض لوگوں کو بڑا گوشت نقصان پہنچاتا ہے تو اسے کھانا چھوڑ دیں یا نہ کھانے کی قسم اٹھا لیں تو یہ جرم نہ ہوگا۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ذاتی نوعیت کا حامل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی اصل اور بنیادی حیثیت رسول کی ہوتی ہے جس کا ہر کام امت کے لیے نمونہ اور واجب الاتباع ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل پر اللہ کی طرف سے گرفت ہوئی کہ مبادا آپ کی امت بھی شہد کو حرام یا کم از کم مکروہ ہی نہ سمجھنے لگے۔ بالفاظ دیگر نبی کا جو کام اللہ کی رضا اور منشا کے مطابق نہ ہو، خواہ وہ ترک اولیٰ قسم کا ہی ہو، اس کی فوراً بذریعہ وحی جلی اصلاح کردی جاتی ہے۔ ٣۔ وحی خفی کی اقسام :۔ جس طرح سنت کی تین اقسام ہیں۔ قولی، وہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے معلوم ہو یا ثابت ہو، فعلی، وہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے معلوم ہو یا ثابت ہو اور تحریری سنت وہ ہوتی ہے کہ کوئی فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے واقع ہو اور آپ نے اس پر گرفت نہ فرمائی ہو یا سکوت اختیار فرمایا ہو اور ایسی سنت بھی قابل حجت ہوتی ہے۔ اسی طرح وحی خفی (قرآن کے علاوہ دوسری قسم کی وحی) کی بھی تین اقسام ہیں۔ قولی وحی وہ اقوال ہیں جو جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ آپ پر نازل ہوئے جیسے ادعیہ مسنونہ اور تشہدوغیرہ۔ فعلی وحی وہ کام ہے جس کے کرنے کا طریق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرئیل علیہ السلام نے سکھایا ہو مثلاً نماز ادا کرنے کا طریقہ اور تقریری وحی وہ ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اجتہاد، قول یا فعل پر اللہ نے از راہ صواب سکوت اختیار فرمایا ہو۔ اور آپ کی زندگی کے بہت سے اقوال و افعال ایسے ہی ہیں۔ اور اگر آپ کے کسی قول یا فعل میں کوئی بات اللہ کی منشا کے خلاف ہو تو اس پر فوراً تنبیہ کرکے اس کی اصلاح کردی جاتی ہے۔ عصمت انبیا کا مفہوم :۔ کسی بڑے سے بڑے برگزیدہ انسان حتیٰ کہ انبیاء سے بھی غلطی کا صدور ممکن ہے فرق صرف یہ ہے کہ انبیا کی غلطی کی فوراً بذریعہ وحی اصلاح کردی جاتی ہے جس سے ان کی زندگی بالکل بےداغ (جسے ہم اصطلاحی زبان میں عصمت انبیاء کہتے ہیں) ایک قابل تقلید نمونہ اور امت کے لیے واجب الاتباع بن جاتی ہے اور یہ مقام انبیاء کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوتا۔