فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا
پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو، یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہوجاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کے لیے قائم کرو۔ یہ وہ (حکم) ہے جس سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔
[٦] نئی صورت سے مراد مصالحت، رضا مندی اور رجوع کی وہ راہیں ہیں جو طلاق کے بعد فریقین کو ہوش میں آنے اور طلاق کے نقصانات پر غور کرنے کے بعد درست نظر آنے لگتی ہیں۔ [٧] دور جاہلیت میں طلاق کے سلسلہ میں عورتوں کی حالت زار :۔ یعنی تمہارے ہی گھر میں تمہاری مطلقہ بیوی کی عدت ختم ہونے کو آئے، تو تمہارے سامنے دو راستے ہیں ایک یہ کہ بہرحال تم انہیں چھوڑنا ہی چاہتے ہو ایسی صورت میں ان کے سب حقوق انہیں ادا کرو اور علاوہ ازیں ان سے فیاضانہ سلوک کرتے ہوئے کچھ مزید بھی اپنی استطاعت کے مطابق دے دو۔ جاتے جاتے اس پر کوئی الزام تراشی نہ کرو نہ اسے کسی طرح کا دکھ پہنچاؤ۔ بلکہ اپنی زندگی کے ساتھی کو شکر رنجیوں کے باوجود بھلے مانسوں اور شریفوں کی طرح رخصت کرو۔ اور اگر تم انہیں اپنے گھر میں ہی آباد رکھنا چاہتے ہو تو رجوع کرلو۔ اور اس معاملہ میں تمہاری نیت بخیر اور اس عورت کو فی الواقع آباد رکھنے کی ہونی چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی بیوی کو مزید سزائیں دینے کی خاطر اس سے رجوع کرکے اپنے ہاں روکے رکھو۔ یہ حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر ان بے پناہ مظالم کا خاتمہ کردیا جو دور جاہلیت میں ان پر ڈھائے جاتے تھے۔ عورتوں کی اس دردناک کیفیت کو امام ترمذی نے یوں بیان فرمایا : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرد جتنی بھی طلاقیں چاہتا اپنی بیویوں کو دیئے جاتا اور عدت کے اندر پھر رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ مرد سو بار یا اس سے بھی زیادہ طلاقیں دیتا جائے۔ یہاں تک کہ ایک (انصاری) مرد نے اپنی بیوی سے کہا : اللہ کی قسم! میں نہ تو تجھے طلاق دوں گا کہ تو مجھ سے جدا ہوسکے اور نہ ہی میں بساؤں گا۔ اس عورت نے پوچھا وہ کیسے؟ کہنے لگا :’’میں تجھے طلاق دونگا اور جب تیری عدت گزرنے کے قریب ہوگی تو رجوع کرلوں گا‘‘ یہ سن کر وہ عورت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی اور اپنا یہ دکھڑا سنایا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خاموش رہیں تاآنکہ رسول اللہ تشریف لائے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو یہ ماجرا سنایا تو آپ بھی خاموش رہے تاآنکہ قرآن (کی یہ آیت) نازل ہوئی۔ ’’طلاق صرف دو بار ہے پھر یا تو ان عورتوں کو بھلے مانسوں کی طرح اپنے پاس رکھو یا پھر اچھی طرح سے رخصت کردو‘‘ (ترمذی۔ ابو اب الطلاق واللعان۔ باب بلا عنوان) [٨] رجوع وطلاق پر گواہ بنانے کا فائدہ :۔ یعنی اگر رجوع کرکے اسے اپنے پاس رکھ لیا ہے تو بھی دو معتبر گواہ بنا لے تاکہ بعد میں زوجین متہم نہ ہوں۔ اور اگر رخصت کرنا ہے تو بھی گواہ بنا لو۔ واضح رہے کہ یہ گواہی رجوع اور طلاق کے لیے شرط نہیں کہ اگر گواہ نہ بنائے جائیں تو رجوع اور طلاق غیر موثر ہوتے ہیں اور واقع نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ حکم اس احتیاط کے لیے دیا گیا ہے کہ بعد میں کوئی فریق کسی واقعہ کا انکار نہ کردے اور نزاع پیدا ہونے کی صورت میں بآسانی فیصلہ ہوسکے اور شکوک و شبہات کا دروازہ بھی بند ہوجائے۔ [٩] یعنی اگر رخصتی یا رجوع کے بعد فریقین میں کسی بات میں نزاع پیدا ہوجائے تو گواہ جانبداری سے ہرگز کام نہ لیں نہ گول مول بات کریں نہ ہیرا پھیری سے کام لیں بلکہ صاف اور سیدھی سچی گواہی دیں۔ [١٠] طلاق سے متعلق اخلاقی ہدایات :۔ یعنی یہ ہدایات تمہاری ہی خیرخواہی کے لئے ہیں اور بطور پندونصیحت ہیں۔ ان کی حیثیت قانونی نہیں ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنی عورت کو حالت حیض میں یا اس طہر میں جس میں اس نے صحبت کی ہو طلاق دے دے گا تو اگرچہ اس نے خلاف سنت اور گناہ کا کام کیا تاہم طلاق واقع ہوجائے گی اسی طرح اگر اس نے ستانے کی خاطر ہی رجوع کیا ہو تو یہ بھی رجوع قانوناً تسلیم کیا جائے گا۔ یا عورت کو رخصت کرتے وقت حسن سلوک کے بجائے دھکے مار کر نکال دیا ہو تب بھی طلاق کے واقع ہونے میں کوئی شک نہ رہے گا۔ یہ ہدایات تو اس شخص کے لئے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا اور اللہ سے ڈرتا ہو۔ وہ ان پر اس لئے عمل کرے گا کہ یہ اس کے ایمان کا تقاضا ہے۔ اور اس لئے بھی کہ ان احکام کی نافرمانی کرنے پر آخرت میں اس سے باز پرس بھی ہوگی اور گرفت بھی۔ [١١] گھریلو مسائل اور بالخصوص میاں بیوی کے تعلقات بعض دفعہ ایسی پیچیدہ صورت اختیار کر جاتے ہیں کہ انسان انہیں جس قدر حل کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اور زیادہ پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں اور الجھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایسے پریشان کن حالات میں انسان کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ جو کام بھی کرے اللہ سے ڈر کر کرے۔ اگر واضح احکام موجود ہیں تو ان پر عمل کرے اور اگر واضح احکام نہیں ملتے تو بھی اللہ کے ڈر کو ہی مشعل راہ بنائے اور اللہ کی منشا معلوم کرنے کی کوشش کرنے کے بعد اس پر عمل کرے اور انجام اللہ کے سپرد کر دے۔ آگے ان پیچیدہ حالات سے نکالنا اور ان سے نجات دینا اللہ کا کام ہے۔ وہ خود کوئی راہ اسے سمجھا دے گا یا نئی راہ پیدا کر دے گا۔