يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بے شک تمھاری بیویوں اور تمھارے بچوں میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، سو ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور بخش دو تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
[٢١] بیوی اور اولاد کس صورت میں انسان کی دشمن ہوتی ہے :۔ یعنی ساری بیویاں یا ساری اولاد تمہاری دشمن نہیں بلکہ بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہاری دشمن ہے۔ اور یہی وہ رشتے ہیں جو انسان کے بہت قریبی اور اسے بہت عزیز ہوتے ہیں۔ یہ اگر اللہ کے فرمانبردار ہوں گے تو تمہارے دوست اور نافرمان ہوں گے تو تمہارے دشمن ہیں۔ گویا ان سے بھی تمہاری محبت اور دوستی کی اصل بنیاد اللہ کی فرمانبرداری ہونی چاہئے۔ انہیں کی وجہ سے لوگ کسب حرام اور دوسرے گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے بعض مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کی جرأت نہیں کر رہے تھے۔ انہیں کی ہمدردیاں اگر کفار کے ساتھ ہوں تو تمہارے لئے کئی طرح کی مصیبتوں اور پریشانیوں کا سبب بھی بن سکتے ہیں اور تمہاری عاقبت بھی خراب کرسکتے ہیں۔ لہٰذا ان کے معاملہ میں تمہیں بالخصوص محتاط رہنا چاہئے۔ [٢٢] یعنی اگر تم ان میں کچھ غلط رجحانات دیکھو تو ایسا نہ کرو کہ ان پر اندھا دھند سختی شروع کردو۔ بیویوں کو طلاق دے دو یا بچوں کو گھر سے نکال دو۔ بلکہ ایسا کرو گے تو معاشرتی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ ایسے حالات میں بہتر صورت یہ ہے کہ ان کی اصلاح کی کوشش کرو اور درگزر سے کام لو۔ اور نرمی اور حسن سلوک سے کام لے کر انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرو۔ یہ طریق کار اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بھی از راہ کرم لوگوں کی خطائیں معاف کرتا رہتا ہے۔