زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا ۚ قُلْ بَلَىٰ وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۚ وَذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا انھوں نے گمان کیا کہ وہ ہرگز اٹھائے نہیں جائیں گے۔ کہہ دے کیوں نہیں؟ میرے رب کی قسم! تم ضرور بالضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر تمھیں ضرور بالضرور بتایا جائے گا جو تم نے کیا اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
[١٤] معاد کے انکار پر کوئی دلیل نہیں لائی جا سکتی :۔ حالانکہ ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ علم نہیں ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ یقینی طور پر کہہ سکیں کہ دوبارہ زندگی نہیں ہوسکتی۔ انسان کے پاس ایسا ذریعہ علم نہ کبھی آج سے پہلے تھا، نہ آج ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوسکے گا۔ پھر اس دعویٰ کو اس زور شور سے پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ انسان زیادہ سے زیادہ یہی کچھ کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد جی اٹھنے اور نہ اٹھنے کے دونوں احتمال موجود ہیں۔ لیکن وہ جی اٹھنے کی تردید میں کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتا۔ [١٥] تمہارے اس دعویٰ کے مقابلہ میں، میں اللہ کی طرف سے وحی کے علم کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ تم لوگ میری صداقت کے معترف رہے ہو اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہیں ضرور زندہ کیا جائے گا اور اس لئے زندہ کیا جائے گا کہ آج جو کچھ تم کر رہے ہو اس کا تم سے مؤاخذہ کیا جائے۔ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دی جائے اور مظلوم کی دادرسی کی جائے۔ کائنات کا یہ نظام ہی اس بات پر شہادت دے رہا ہے کہ یہ کوئی اندھیر نگری نہیں ہے۔ کہ تم جو کچھ چاہو کرتے رہو، کرکے مر جاؤ اور تمہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔