مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا، پھر انھوں نے اسے نہیں اٹھایا، گدھے کی مثال کی سی ہے جو کئی کتابوں کا بوجھ اٹھاۓ ہوئے ہے، ان لوگوں کی مثال بری ہے جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلادیا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
[٩] پڑھے لکھے یہود کا اخلاقی انحطاط :۔ اس آیت اور اس سے آگے کی آیات میں براہ راست یہود کو خطاب کیا گیا ہے۔ جو اپنے آپ کو بڑا عالم فاضل سمجھتے تھے۔ انہوں نے تورات کی کئی شرحیں بھی لکھ رکھی تھیں۔ جنہیں تلمود کہتے تھے۔ ان میں سے اکثر لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اور بہت سے تورات کے عالم بھی تھے۔ عرب بھر میں ان کے علم و فضل کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ اسی لیے وہ دوسرے سب لوگوں کو امی، ان پڑھ، بدھو کہتے تھے اور انہیں حقیر سمجھتے تھے لیکن ان کی عملی زندگی کا یہ حال تھا کہ وہ بے عمل بھی تھے اور بدعمل بھی۔ دنیا کے لالچ میں پھنس کر اللہ کو بھول چکے تھے۔ اللہ کے صرف ان احکام پر عمل کرتے تھے جو ان کی طبیعت اور مزاج کے موافق ہوں۔ عالم بے عمل کی گدھے سے تشبیہ :۔ حرام خوری اور علی الاعلان جھوٹ بولنا۔ بدعہدی۔ دغا بازی۔ کتاب اللہ میں اپنی مرضی کے موافق تحریف کرلینا۔ سود کھانا اور غیر یہود کے مال کو ناجائز طور پر حاصل کرکے اسے اپنے لیے حلال و طیب سمجھنا ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی۔ اسی لیے اللہ نے ان کی مثال ایسے گدھے سے دی ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لاد دی گئی ہوں۔ وہ نہیں جانتا کہ اس کی پیٹھ پر علم و حکمت کے خزانے لادے ہیں یا پتھر ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ نے ان لوگوں کو گدھا قرار دیا جو علم و فضل کے دعویدار تھے۔ اس سے از خود یہ اصول مستنبط ہوتا ہے کہ جو عالم بے عمل یا بدعمل ہو وہ عالم نہیں بلکہ گدھا ہوتا ہے۔ جو مفت میں اپنی پیٹھ پر کتابوں کا اور علم کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ [١٠] یہاں اللہ کی آیات سے مراد وہ بشارتیں اور نبی آخرالزمان کی صفات ہیں جو تورات میں موجود تھیں اور اس نبی آخرالزمان کو جھٹلا دینا ہی گویا اللہ کی آیات کو جھٹلا دینے کے مترادف تھا۔