هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول انھی میں سے بھیجا، جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، حالانکہ بلاشبہ وہ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں تھے۔
[٣] یہود امی کا لفظ حقارت اور طنز کے طور پر بولتے تھے :۔ لفظ اُمِّیْ کی تشریح سورۃ اعراف کی آیت نمبر ١٥٥ (حاشیہ ١٥٤) کے تحت گزر چکی ہے۔ لیکن اس سورۃ میں آگے چونکہ یہود کو خطاب ہو رہا ہے۔ لہٰذا یہاں وہی مفہوم مراد ہوگا جو یہودی اس لفظ سے لیا کرتے تھے۔ یہودی خود تو اپنے آپ کو بہت پڑھے لکھے اور عالم فاضل سمجھتے تھے اور اپنے سوا سب غیر یہودیوں کو حقیر سمجھ کر امی کہتے تھے۔ یعنی ان کے سوا سب لوگ ان پڑھ اور بدھو ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ نبی آخرالزمان ہم جیسے عالم فاضل لوگوں میں سے ہوگا۔ گویا انہوں نے اس بات میں اپنی توہین سمجھی کہ وہ ایک ان پڑھ یا غیر یہود قوم میں مبعوث ہونے والے نبی پر ایمان لائیں۔ [٤] اس نبی امی یا نبی آخرالزمان کی چار ذمہ داریاں تھیں۔ ان ذمہ داریوں کی تفصیل پہلے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٢٩ کے حواشی میں گزر چکی ہے۔ وہ ملاحظہ کرلی جائے۔ [٥] دور جاہلیت میں عرب معاشرہ کی حالت :۔ کَانُوْا سے مراد یہود قوم بھی ہوسکتی ہے۔ مشرکین عرب بھی اور پورا عرب معاشرہ بھی۔ قوم یہود جن اخلاقی بیماریوں میں مبتلا تھی اور ان میں جس قدر اخلاقی انحطاط رونما ہوچکا تھا اس کی داستان بڑی طویل ہے اور قرآن میں جا بجا مذکور ہے۔ رہا عرب معاشرہ جس میں یہود بھی شامل تھے۔ ایسی نہ ختم ہونے والی قبائلی لڑائیوں میں مبتلا ہوچکا تھا۔ جس سے گھروں کے گھر برباد ہوگئے تھے۔ لیکن اس بیماری کا کوئی علاج انہیں نظر نہیں آتا تھا۔ شرک عام تھا ہر قبیلے کے الگ الگ بت بھی ہوتے تھے اور کچھ بڑے بت مشترکہ بھی ہوتے تھے۔ لوٹ مار' قتل وغارت' فحاشی ' زنا کاری اور شراب نوشی یہ سب باتیں ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ اگرچہ سودی لین دین کا بھی رواج تھا تاہم اس کام میں یہودی قوم سب سے پیش پیش تھی۔ اور اس بات کے باوجود کہ سود ان کی شریعت میں حرام تھا۔ انہوں نے غیر یہود سے سود وصول کرلینا صرف جائز ہی نہیں بنا رکھا تھا۔ بلکہ اسے ایک مستحسن فعل سمجھتے تھے۔ انہی بیماریوں کی وجہ سے اہل عرب کی زندگی انتہائی تلخ صورت اختیار کرچکی تھی۔