وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۖ فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! تم مجھے کیوں تکلیف دیتے ہو، حالانکہ یقیناً تم جانتے ہو کہ بے شک میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ پھر جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
[٤] بنی اسرائیل کا اپنے نبی سیدنا موسیٰ کو تکلیفیں پہنچانا :۔ تمام انبیاء کو اپنے مخالفین اور دشمنوں سے دکھ اور مصائب پہنچتے ہی رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ قابل افسوس بات یہ ہوتی ہے کہ اپنے ہی لوگ دکھ پہنچانے لگیں۔ اس سلسلہ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو جس قدر پریشان کیا اور دکھ پہنچایا تھا۔ شاید ہی کسی دوسری قوم نے پہنچایا ہو۔ حالانکہ انہیں خوب معلوم تھا بلکہ یقین تھا کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے انہیں اللہ کے حکم کے مطابق ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو طرح طرح کی کٹ حجتیاں اور سوال کر کرکے آپ کو پریشان کردیا۔ فرعون سے نجات پاکر آگے روانہ ہوئے ہی تھے کہ ایک قوم کو بت پوجتے دیکھ کر کہنے لگے : موسیٰ ! ہمیں بھی اس طرح کا ایک بت بنا دو۔ جس کی ہم پوجا کیا کریں۔ میدان تیہ میں ان کو بلا مشقت من و سلویٰ مل رہا تھا تو کہنے لگے: موسیٰ! ہم تو یہ غذا کھا کر تنگ آگئے ہیں اور جی بھر گیا ہے۔ لہٰذا اب سبزیاں اور دالیں کھانا چاہتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام طور پرتورات لینے گئے تو بعد میں ایک بچھڑا بنا کر اس کی پوجا شروع کردی اور کہنے لگے کہ موسیٰ علیہ السلام تو بھول کر طور پر چلے گئے۔ ہمارا اور اس کا معبود تو یہ ہے وہ وہاں کیا لینے چلے گئے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کتاب تورات لے کر آئے تو کہنے لگے۔ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ واقعی اللہ کی طرف سے ہی نازل شدہ کتاب ہے۔ ہم تو جب تک واضح طور پر اللہ کو دیکھ نہ لیں یہ کتاب ماننے کو تیار نہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے انہیں ارض شام میں جہاد کرنے کو کہا تو کہنے لگے موسیٰ ! وہاں تو بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں ہم ان سے کیسے لڑ سکتے ہیں۔ اگر جہاد اتنا ہی ضروری ہے تو تم اور تمہارا رب دونوں جا کر ان سے جہاد کرو۔ ہم تو یہیں بیٹھیں گے۔ اپنی قوم کی ایسی ہی باتوں سے تنگ آکر سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تھی۔ ’’پروردگار! میرا اختیار تو صرف اپنی ذات پر اور اپنے بھائی پر ہے لہٰذا اس نافرمان قوم سے ہمارا ساتھ چھڑا دے‘‘ (٥: ٢٥) انبیاء اپنی دشمن قوم کے لیے تو ایسی دعا مانگتے ہی رہے ہیں۔ مگر کسی نبی نے غالباً اپنی قوم کے حق میں ایسی دعا کبھی نہیں مانگی۔ [٥] اپنے نبی کی شان میں گستاخیاں کرتے کرتے اور دکھ پہنچاتے پہنچاتے ان کی فطرت ہی کچھ ایسی ٹیڑھی بن چکی تھی کہ کسی حکم کو بھی وہ سچے ایمانداروں کی طرح تسلیم کرلینے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ بلکہ اس میں مین میخ نکال کر اس کا کچھ الٹا ہی مطلب نکال لیتے تھے۔ پھر جب انہوں نے کجروی کی راہ اختیار کی تو اللہ نے بھی انہیں اسی راہ پر ڈال دیا۔ کیونکہ اللہ کا یہ دستور نہیں کہ وہ ٹیڑھی راہ اختیار کرنے والوں کو زبردستی سیدھی راہ پر ڈال دے۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے اس دنیا میں انسان کی آزمائش کا مقصد ہی ختم ہوجاتا ہے۔