وَإِن فَاتَكُمْ شَيْءٌ مِّنْ أَزْوَاجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَآتُوا الَّذِينَ ذَهَبَتْ أَزْوَاجُهُم مِّثْلَ مَا أَنفَقُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ
اور اگر تمھاری بیویوں میں سے کوئی کافروں کی طرف چلی جائے، پھر تم بدلہ حاصل کرو تو جن لوگوں کی بیویاں چلی گئی ہیں انھیں اتنا دے دو جتنا انھوں نے خرچ کیا ہے اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھنے والے ہو۔
[٢٤] اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ فریقین کے حق میں نہایت منصفانہ اور حکیمانہ تھا۔ جو مسلمانوں کے لیے تو بہرحال واجب الاطاعت تھا لیکن کافروں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ وہ ان کافر عورتوں کا سابقہ حق مہر ان مسلمانوں کو دینے کے لیے تیار نہ ہوئے جن کے نکاح میں وہ پہلے تھیں۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو طریقے بتائے۔ جن سے مسلمانوں کو اس رقم کی ادائیگی ہوسکتی تھی جو انہوں نے اپنی کافر بیویوں کو دی تھی اور یہ دونوں طریقے لفظ عاقَبْتُمْ سے ماخوذ ہیں۔ اس لفظ کا ایک مفہوم تو ترجمہ میں واضح کردیا گیا ہے۔ کہ ایسے مسلمانوں کو ان کا حق اموال غنائم سے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو بیت المال سے ادا کردیا گیا ہے۔ اور عاقَبْتُمْ کے معنی ’’جب تمہاری باری آئے‘‘ یا ’’تمہارا داؤ لگے‘‘ بھی کیے گئے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جمع تفریق کے ذریعہ حساب برابر کرلو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مثلاً ''الف'' اور ''ب'' دو مسلمان ہیں۔ جنہوں نے کافروں کی مدینہ پہنچ جانے والی مومن عورتوں سے نکاح کرنا ہے اور ان کا سابقہ حق مہر جو کافروں سے طے ہوا تھا، دو دو سو درہم ہے۔ دوسری طرف ''ج'' اور ''د'' دو کافر ہیں جو مکہ میں مسلمانوں کی کافر بیویوں پر قابض ہیں اور ان کا سابقہ حق مہر مثلاً ڈیڑھ ڈیڑھ سو درہم تھا۔ اب مسلمانوں نے کافروں کو ادا تو چار سو درہم کرنا ہے اور کافروں سے لینا تین سو درہم ہے۔ تو مسلمان کافروں کو اب صرف ایک سو درہم دے کر حساب بیباق کردیں گے۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو مسلمانوں کو دینے کے بجائے کچھ لینا آتا ہو اور کافر دینے کو تیار نہ ہوں یا پورے کا پورا ہی نہ دے رہے ہوں تو اس کی صورت وہی ہوگی جو پہلے مذکور ہوچکی۔ یعنی انہیں اس وقت ادائیگی ہوگی جب کافروں سے مال غنیمت ہاتھ لگ جائے یا پھر یہ رقم بیت المال سے بھی ادا کی جاسکتی ہے۔