مَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں سے اپنے رسول پر لوٹایا تو وہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور قرابت دار اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کے لیے ہے، تاکہ وہ تم میں سے مال داروں کے درمیان ہی گردش کرنے والا نہ ہو اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو، یقیناً اللہ بہت سخت سزا دینے والا ہے۔
[٧] اموال فے بیت المال کی ملکیت ہوتے ہیں :۔ سابقہ آیت میں حکم صرف بنو نضیر کی متروکہ جائیداد سے متعلق تھا۔ اس آیت میں ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو اموال بھی جنگی کارروائیوں کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں وہ بیت المال کی ملکیت متصور ہوں گے۔ اس میں مجاہدین کو کچھ نہیں ملے گا۔ کیونکہ یہ ان کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اس اجتماعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا یہ اموال، اموال غنیمت سے بالکل جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ان اموال پر مسلمانوں کے امیر کا تصرف حاکمانہ ہوتا ہے۔ اور اموال فے کا اطلاق منقولہ اور غیر منقولہ دونوں قسم کے اموال پر ہوگا۔ اموال فے میں وہ جزیہ و خراج کی آمدنی بھی شامل ہے۔ جو ایک اسلامی ریاست کو غیر مسلموں سے حاصل ہوتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اموال فے کے مصارف کی مدات بھی بیان فرما دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد آپ کے قرابتداروں پر خرچ کرنے کی مد باقی ہے یا ختم ہوگئی؟ اس میں اختلاف ہے بعض علماء کہتے ہیں کہ چونکہ بنو ہاشم اور بنومطلب پر اموال زکوٰۃ حرام ہیں اس لیے ایسے اموال سے ان کے محتاجوں کی خدمت کی جائے گی۔ [٨] اسلام کے معاشی نظام کے چند سنہری اصول :۔ اس مختصر سے جملہ میں اسلام کے معاشی نظام کو یوں بیان کیا گیا ہے جیسے سمندر کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہو۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا مطلب اتنا ہی ہے کہ اموال فے کو مجاہدین پر تقسیم نہ کیا جائے۔ جن میں سے اکثر پہلے ہی غنی ہوچکے ہیں محتاج اور مسکین نہیں رہے۔ اور دولت انہی میں تقسیم نہ کردی جائے بلکہ نادار لوگوں تک پہنچائی جائے تاہم اس میں ایک عام اصول بیان کردیا گیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں دولت کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف ہونا چاہئے نہ کہ غریبوں سے امیروں کی طرف۔ غریبوں سے امیروں کی طرف دولت کے بہاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ سود ہے۔ جس کی تمام تر شکلوں کو مکمل طور پر حرام کردیا گیا ہے۔ اور زکوٰۃ یعنی فرضی صدقہ، واجبی صدقات اور نفلی صدقات جن کا قرآن میں جگہ جگہ حکم اور ان کی ترغیب دی گئی ہے ان سب کا مقصد یہ ہے کہ دولت کا بہاؤ امیر سے غریب کی طرف ہو۔ سرمایہ داری اور ارتکاز دولت پر اسلام کا قانون میراث کاری ضرب لگاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کے پاس کروڑوں اور اربوں کی مالیت بھی ہو تو وہ چند ہی نسلوں میں منتشر ہو کر سینکڑوں افراد میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ یہاں چند امور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ دولت اگر چند سرمایہ داروں کے پاس جمع ہوجائے تو اس سے طبقاتی تقسیم بڑھتی جاتی ہے امیر دن بدن امیر تر اور غریب دن بدن غریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آپس میں ان طبقوں میں منافرت اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے جو اور بڑے بڑے فتنوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ دولت جس قدر تیزی سے گردش کرے گی اسی قدر قومی معیشت میں خوشحالی واقع ہوگی۔ تیسرے یہ کہ دولت کی گردش کی رفتار صرف اس وقت تیز ہوتی ہے جبکہ غریبوں کی امداد کرکے ان میں قوت خرید پیدا کی جائے اور اگر دولت امیروں کے پاس جمع ہوتی رہے تو گردش کی رفتار حیرت انگیز حد تک کم ہوجاتی ہے۔ ان امور کی تشریح ان حواشی میں بہت مشکل ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے میرا مضمون اسلامی معیشت اور سود مطبوعہ سہ ماہی مجلہ'' منہاج اسلامی معیشت نمبر ''جنوری، اپریل ١٩٩٢ئ [٩] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یقینی شرعی حجت اور واجب الاتباع ہے :۔ یہ جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو قابل حجت تسلیم کرنے پر قطعی دلیل مہیا کرتا ہے۔ لیکن مشہور منکر حدیث حافظ اسلم صاحب جیرا جپوری نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ جملہ تو اموال فے کی تقسیم کے بارے میں ہے۔ حدیث کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہاں آتیٰ کا لفظ جو نہی کے بالمقابل استعمال ہوا ہے لوگوں نے غلط فہمی سے اسے امر یا قال کے معنی میں سمجھ لیا۔ حالانکہ یہ لفظ قرآن میں سینکڑوں جگہ آیا ہے اور کہیں ان معنوں میں مستعمل نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ہر جگہ اس کے معنی اعطاء یعنی دینے کے ہی ہیں۔ لہٰذا یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔ (مقام حدیث ص ١٢٦) اب دیکھیے کہ اتیٰ بمعنی اِعْطَاء ُکی ضد منع ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ اور نھیٰ کی ضد امر ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے نھیٰ کے مقابلہ میں امر کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ گویا حافظ صاحب صرف اپنے نظریہ کی تائید کے لیے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت پر اعتراض فرما رہے ہیں کہ نھیٰ کے معنی ''نہ دینا'' کبھی نہیں ہوتا۔ پھر اگر قرآن کریم میں فی الواقع اتٰکُمْ کے مقابلہ نَھٰکُمْ کا لفظ ہی استعمال ہوتا تو بھی اسے اس خاص واقعہ یعنی مال فے کی تقسیم سے متعلق ہی قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ یہ ایک عام اصول ہے کہ کسی خاص واقعہ میں کوئی حکم آجائے تو یہ حکم عام ہوتا ہے۔ چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ نے اٰتٰکُم، کے مقابلہ میں نَھٰکُمْ کا لفظ استعمال کرکے اس شائبہ کو بالکل ہی ختم کردیا ہے کہ اس حکم کا تعلق اس خاص واقعہ یا اسی جیسے بعد میں آنے والے دوسرے واقعات سے ہوسکتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اٰتٰکُمْ کے مقابلہ میں نَھَاکُمْ کا لفظ لا کر ایک طرف تو اس پیش آمدہ مسئلہ کا حل پیش کردیا اور دوسری طرف اس حکم میں ایسی عمومیت پیدا کردی جس سے صرف وہی لوگ لذت آشنا ہوسکتے ہیں جو عربی زبان کا کچھ ذوق رکھتے ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ اصل میں غلط فہمی کا شکار کون ہے تو اس کے لیے پہلے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے۔ منکرین حدیث کا ایک اعتراض اور اس کا جواب' عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وضاحت :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی، گدوانے والی، خوبصورتی کے لیے چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور دانتوں کو جدا کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے جو اللہ کی خلقت کو بدلتی ہیں۔ یہ حدیث بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جس کی کنیت ام یعقوب تھی۔ وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہنے لگی :’’مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ نے ایسی ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے‘‘ انہوں نے کہا :’’میں تو اس پر ضرور لعنت کروں گا جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور اللہ کی کتاب میں اس پر لعنت آئی ہے‘‘ اس عورت نے کہا: ’’میں نے تو سارا قرآن، جو دو تختیوں کے درمیان ہے، پڑھ ڈالا ہے، اس میں تو کہیں ان عورتوں پر لعنت نہیں آئی‘‘ آپ نے کہا :’’اگر تو نے (اچھی طرح) قرآن پڑھا ہوتا تو ضرور یہ مسئلہ پالیتی۔ کیا تو نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ پیغمبر جس بات کا تمہیں حکم دے اس پر عمل کرو اور جس بات سے منع کرے اس سے باز رہو؟‘‘ اس عورت نے کہا :’’ہاں! یہ آیت تو قرآن میں موجود ہے‘‘ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے۔ ’’بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں سے منع کیا ہے‘‘ وہ کہنے لگی: ’’تمہاری بیوی بھی تو یہ کام کرتی ہے‘‘ انہوں نے کہا : ’’جاکر دیکھو تو‘‘ جب وہ گئی تو وہاں کوئی بات نہ پائی۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : اگر میری بیوی ایسے کام کرتی تو بھلا وہ میرے ساتھ رہ سکتی تھی؟ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اب سوال یہ ہے کہ اس آیت کا صحیح مفہوم سمجھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم تھے یا قبلہ حافظ صاحب؟ پھر ام یعقوب نے جو اگر صحابیہ نہیں تو تابعیہ تو ضرور ہوگی۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ استدلال سن کر یہ نہیں کہا کہ یہ حکم تو مال فے کی تقسیم سے متعلق ہے اور اٰتٰی کے معنی اعطاء ہوتا ہے بلکہ اس نے ’’میں سمجھ گئی‘‘ کا اقرار کرکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سمجھے ہوئے مفہوم کی تائید کردی۔ صحابہ میں یہ فہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منتقل ہوا۔ پھر صحابہ سے تابعین میں، ان سے تبع تابعین میں پھر محدثین میں، آخر وہ کون سا دور ہے جس میں اس مفہوم کو درست نہ سمجھا گیا ہو۔ جسے حافظ صاحب لوگوں کی غلط فہمی قرار دے رہے ہیں۔ اور وہ مفہوم یہ ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریعت کا حصہ ہے نیز یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسے احکام کو کتاب اللہ میں ہی شمار کرتے تھے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: عنقریب تم میں ایک پیٹ بھرا شخص اپنے پلنگ پر تکیہ لگائے میری حدیثیں سن کر یہ کہے گا کہ ہمارے تمہارے درمیان قرآن (کافی) ہے اس کے حلال کیے ہوئے کو حلال اور حرام کیے ہوئے کو حرام سمجھو۔ یاد رکھو! مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اس کے مثل اور بھی (ترمذی۔ ابو داؤد۔ ابن ماجہ۔ مسند احمد۔ بیہقی دارمی بحوالہ مشکٰوۃ) واضح رہے آپ کی سنت پر عمل پیرا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر قرآن کے احکام بھی کسی صورت بجا نہیں لائے جاسکتے۔ لہٰذا جو شخص سنت یا حدیث کی حجیت کا قائل نہ ہو وہ حقیقتاً قرآن کا بھی منکر ہوتا ہے۔ بلکہ اسے بننا پڑتا ہے۔