وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
اور توبہ ان لوگوں کی نہیں جو برے کام کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجاتی ہے تو وہ کہتا ہے بے شک میں نے اب توبہ کرلی اور نہ ان کی ہے جو اس حال میں مرتے ہیں کہ وہ کافر ہوتے ہیں، یہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے۔
[٣١] جب انسان پر نزع کا عالم طاری ہوجائے، وہ موت کے آثار دیکھ لے اور اسے روح قبض کرنے والے فرشتے نظر آنے لگیں تو توبہ کا وقت ختم ہوچکا۔ کیونکہ اب وہ دارالامتحان سے نکل کر دارالآخرت کی سرحد پر کھڑا ہے اور توبہ ایک عمل ہے جس کا وقت گزر چکا۔ اس آیت میں دو طرح کے لوگوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ جو تھے تو مسلمان مگر ساری عمر گناہ کرتے کرتے ہی گزار دی اور دوسرے وہ جو کافر تھے پھر اسی کفر کی حالت میں مر گئے۔ دونوں طرح کے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ان دو آیات میں چار قسم کے لوگوں کی توبہ کا ذکر ہوا ہے۔ ایک وہ جس نے نادانستہ گناہ کیا۔ مگر جب اسے معلوم ہوگیا تو اس نے فوراً توبہ کرلی۔ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ﴿ اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ ﴾ اور علیٰ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اللہ پر واجب ہے یا وہ ضرور توبہ قبول کرتا ہے اور یہ بھی اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنا اپنے لیے واجب کرلیا ورنہ وہ تو مختار مطلق ہے۔ اور دوسری قسم عدم شرط سے پیدا ہوجاتی ہے یعنی وہ لوگ جو گناہ تو نادانستہ طور پر ہی کرتے ہیں مگر معلوم ہوجانے پر توبہ میں جلدی نہیں کرتے بلکہ تاخیر کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا اللہ نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ چاہے تو قبول کرلے اور چاہے تو نہ کرے۔ تیسری قسم اس مسلمان کی ہے جسے عمر بھر تو توبہ کا خیال نہ آیا اور اگر خیال آیا بھی تو موت کے وقت، ایسے شخص کے متعلق واضح طور پر فرما دیا کہ اس کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ اور چوتھی قسم جو توبہ کیے بغیر کفر ہی کی حالت میں مر گیا اس کی بھی موت کے وقت توبہ قبول نہیں ہو سکتی اور اس کی وجہ اوپر بیان کی جا چکی ہے۔