آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ
اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن میں اس نے تمھیں (پہلوں کا) جا نشین بنایا ہے، پھر وہ لوگ جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے خرچ کیا ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔
[٩] ترتیب نزولی اور اس مضمون سے ایسا مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورت جنگ احزاب کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اس وقت تک قریش مکہ ہی مسلمانوں پر چڑھ چڑھ کر آتے رہے اور حملہ آور ہوتے رہے۔ جنگ احزاب کے خاتمہ اور کافروں کے فرار کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا فرما دیا تھا کہ آج کے بعد کفار ہم پر حملہ آور نہ ہوں گے تاہم ابھی مسلمانوں کا غلبہ بہت دور کی بات تھی۔ ایسے مذبذب حالات میں بھی کچھ مسلمان اور مہاجرین ایسے تھے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں پر پختہ یقین رکھتے تھے اور تنگ دستی کے باوجود اس حق و باطل کے معرکہ میں جو کچھ بھی انہیں میسر آتا بےدریغ خرچ کر رہے تھے۔ لیکن کئی نو مسلم ایسے بھی تھے جو گومگو کی حالت میں تھے۔ نہ حق و باطل کے اس معرکہ میں مخلص بن کر کوشش کرتے تھے اور نہ ہی جہاد کی خاطر اپنے اموال خرچ کرنے کو تیار تھے۔ ان آیات میں ایسے ہی لوگوں کو خطاب کیا جارہا ہے۔ جو اسلام لانے کے باوجود اسلام کے لیے جانی یا مالی یا بدنی قربانیاں پیش کرنے کو تیار نہ تھے اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ ایمان لاکر اللہ کے رسول کا ساتھ دو اور ان کے کیے ہوئے وعدوں کو یقینی سمجھو۔ [١٠] یعنی جن اموال سے اللہ کی راہ میں یا جہاد کی خاطر خرچ کرنے سے تم گریز کر رہے ہو ان اموال کے تم حقیقی مالک نہیں ہو۔ ان کا حقیقی مالک تو اللہ ہے۔ تمہاری حیثیت صرف ایک نائب اور امین کی ہے۔ یہ اموال موت کے وقت تو یقیناً تمہاری ملکیت سے نکل جائیں گے اور اس سے پہلے بھی نکل سکتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ پہلے یہی اموال اور لوگوں کے قبضے میں تھے آج تم ان کے جانشین ہونے کی بنا پر ان پر قابض ہو۔ لہٰذا ان اموال کو اپنی ملکیت نہ سمجھ بیٹھو اور اللہ کی ہدایات اور رضا کے مطابق اسے خرچ کردو۔ ایسا خرچ کیا ہوا مال ہی تمہارے لیے بہت بڑے اجر کا سبب بنے گا۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ جتنا مال تم خرچ کرو گے اتنا یا اس سے زیادہ مال اور دے دے گا۔