وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ
اور تم اپنا حصہ یہ ٹھہراتے ہو کہ بے شک تم جھٹلاتے ہو۔
[٣٩] اس آیت کے بھی کئی مطالب ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح روزانہ کھانا کھاناتمہارا معمول ہے اسی طرح قرآن کو جھٹلانا بھی تم نے روز مرہ کا معمول بنا رکھا ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی کوئی اور توجیہ تلاش کرکے اللہ کی اس نعمت کو بھی جھٹلا دینا تمہارا معمول بن گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے رزق کا شکر یوں ادا کرتے ہو کہ اللہ کو جھٹلاتے ہو اور کہتے ہو کہ مینہ ہم پر فلاں نچھتر اور فلاں ستارے کے سبب سے برسا ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور یہ قرآن بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی بارش اور بہت بڑی نعمت ہے اور تم اس نعمت کی شکرگزاری یوں کرتے ہو کہ اسے جھٹلا دیتے ہو۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ قرآن کو مان لینے سے تمہارا رزق بند ہوجائے گا۔ کعبہ کی سرپرستی اور تولیت چھن جائے گی۔ نذریں نیازیں بند ہوجائیں گی اور کعبہ کی وجہ سے عرب بھر میں جو تمہارا عزت و وقار بنا ہوا ہے سب ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا تم اپنے رزق اور عز وجاہ کا ثبات اسی بات میں دیکھتے ہو کہ تم قرآن کو جھٹلاتے رہو۔