وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا
اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو، پھر اگر وہ اس میں سے کوئی چیز تمھارے لیے چھوڑنے پر دل سے خوش ہوجائیں تو اسے کھالو، اس حال میں کہ مزے دار، خوشگوار ہے۔
[٧] یتیم لڑکیوں اور ان کے حق مہر کا بیان شروع ہوا تو عام عورتوں کے حق مہر کے متعلق بھی تاکید فرما دی کہ ان کے حق مہر انہیں برضا و رغبت پورے کے پورے ادا کردیئے جائیں۔ ہاں اگر وہ از خود بلاجبر و اکراہ اپنی خوشی سے یہ حق مہر یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ دیں تو وہ تمہارے لیے حلال اور طیب رزق ہے لیکن ان کا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ معاف کرانے میں ہیرا پھیری سے ہرگز کام نہ لیا جائے۔ حق مہر کا تعین :۔ یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حق مہر کتنا ہونا چاہیے؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلے ہمیں سنت نبوی کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ چنانچہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کا مہر کتنا تھا ؟ تو انہوں نے کہا کہ ’بارہ اوقیہ چاندی اور نش‘ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے پوچھا، جانتے ہو نش کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ تو کہنے لگیں : نش سے مراد نصف ہے اور یہ کل ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی یا پانچ سو درہم ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی بیویوں کے لیے یہی حق مہر تھا۔ (مسلم : کتاب النکاح، باب الصداق) اسی سلسلہ میں دوسری روایت اس طرح ہے کہ ابو العجفاء کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ کے دوران لوگوں سے فرمایا کہ ’’دیکھو! عورتوں کے حق مہر بڑھ چڑھ کر نہ باندھا کرو، کیونکہ اگر مہر بڑھانا دنیا میں کوئی عزت کی بات ہوتی یا اللہ کے ہاں تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔ اور میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا یا اپنی کسی بیٹی کا حق مہر بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ باندھا ہو۔‘‘ (ترمذی : ابو اب النکاح : باب ماجاء فی مھور النسائ) ہم ان دونوں روایات میں سے مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کے مطابق ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی (ایک اوقیہ = ٤٠ درہم) یا ٥٠٠ درہم والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔ درہم چاندی کا ایک سکہ تھا۔ جس کا وزن ٢؍١۔ ٤ ماشہ چاندی تھا۔ اس حساب سے یہ ٥٠٠ x ٢/٩ x ١٢/١ = ٢/٣٧٥=٢/١۔ ١٨٧ تولے چاندی ہوئی اور اگر موجودہ حساب سے ١٥٠ روپیہ فی تولہ فرض کیا جائے تو یہ آج کل =/٢٨١٢٥ روپے پاکستانی بنتے ہیں۔ اور اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ ٢٠ درہم=ایک دینار۔ اور دینار ٢/١۔ ٣ ماشہ سونے کا سکہ تھا۔ اس لحاظ سے یہ ٢٠/٥٠٠= ٢٥ دینار ہوئے۔ جن کا وزن ٢٥ x ٢٤/٧ تولے بنتا ہے اور اگر ایک تولہ سونا کا نرخ ٤٥٠٠ روپے فی تولہ لگایا جاے تو یہ =/٣٢٨١٢ روپے پاکستانی بنتے ہیں اور اگر ان دونوں رقموں کا اوسط نکالا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کا پاکستان کی موجودہ کرنسی کے حساب سے تیس ہزار روپے حق مہر مقرر کیا تھا اور یہ وہ رقم ہے جس کے متعلق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ لوگو! اس سے زیادہ حق مہر نہ باندھا کرو۔ اب اسی سے متعلق ایک تیسری روایت بھی ملاحظہ فرمائیے۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے یہ خطاب فرما رہے تھے تو ایک عورت پکار اٹھی (کیونکہ یہ بات عورتوں کے حقوق سے تعلق رکھتی تھی) کہ ’’تم یہ کیسے پابندی لگا سکتے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے: ﴿وَّاٰتَیْتُمْ اِحْدٰیھُنَّ قِنْطَارًا﴾ (4: 2)یعنی اگرچہ تم اپنی کسی بیوی کو خزانہ بھر بھی بطور حق مہر دے چکے ہو۔ عورت کی یہ بات سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بے ساختہ پکار اٹھے۔ ’’پروردگار! مجھے معاف فرما، یہاں تو ہر شخص عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ فقیہ ہے۔‘‘ پھر منبر پر چڑھے اور کہا ’’لوگو! میں نے تمہیں چار سو درہم سے زیادہ حق مہر باندھنے سے روکا تھا۔ میں اپنی رائے واپس لیتا ہوں۔ تم میں سے جو جتنا چاہے، مہر میں دے۔‘‘ ان احادیث کے علاوہ ایک اور متفق علیہ حدیث ہمیں سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے متعلق ملتی ہے کہ انہوں نے ایک کھجور کی گٹھلی بھر سونا حق مہر کے عوض ایک انصاری عورت سے نکاح کیا تھا لیکن یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ وہ گٹھلی کتنی بڑی یا چھوٹی تھی اور اس کا وزن کتنا تھا۔ سونا چونکہ سب سے وزنی دھات ہے اس لیے گمان یہی ہے کہ وہ بھی چھ سات تولے سونے کے لگ بھگ ہوگی۔ کم سے کم حق مہر کے متعلق بھی ایک حدیث تقریباً سب کتب حدیث میں موجود ہے کہ ’’ایک عورت نے اپنا نفس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہبہ کیا مگر آپ خاموش رہے۔ اتنے میں ایک شخص بول اٹھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر آپ نہیں چاہتے تو اس عورت کا مجھ سے نکاح کر دیجئے! آپ نے اس سے پوچھا تمہارے پاس حق مہر دینے کے لیے کوئی چیز ہے؟ وہ کہنے لگا کچھ نہیں ماسوائے اس چادر کے جو میں نے لپیٹ رکھی ہے۔ آپ نے فرمایا : یہ چادر تم رکھو گے یا اسے دو گے۔ جاؤ کوئی لوہے کی انگوٹھی ہی ڈھونڈ لاؤ۔ وہ گیا لیکن اسے وہ بھی نہ ملی اور واپس آ گیا تو آپ نے اس سے پوچھا کہ کچھ قرآن یاد ہے؟ کہنے لگا ہاں! فلاں فلاں سورت یاد ہے۔ آپ نے فرمایا، اچھا وہی سورتیں اس کو (بطورِ حق مہر) زبانی یاد کرا دینا۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک لوہے کی انگوٹھی بھی حق مہر ہو سکتی ہے۔ اس حدیث سے بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ حق مہر کی کم از کم حد ربع دینار یا پانچ درہم ہے اور بعض یہ حد نصف دینار یا دس درہم قرار دیتے ہیں۔ ان تمام احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے اور ایسا ہونا چاہیے جس پر فریقین راضی اور مطمئن ہوں اور آج کل پاکستانی کرنسی کے حساب سے اس کا درمیانی سا معیار تیس ہزار روپے ہے۔ حق مہر کے بارے میں افراط وتفریط :۔ اس تحقیق کے بعد اب اپنے ہاں کے رواج کی طرف آئیے کہ اس معاملہ میں بھی لوگ کس طرح افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے جو شادی پر تو لاکھوں کے حساب سے خرچ کردیتے ہیں مگر جب حق مہر کی باری آتی ہے تو کہتے ہیں کہ حق مہر شرعی باندھ دیجئے اور شرعی حق مہر سے ان کی مراد ٣٢ روپے ہوتی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ حساب کسی عالم نے اس دور میں لگایا ہوگا جب متحدہ ہندوستان میں ایک روپے کا چار سیر دیسی گھی مل جاتا تھا۔ ملازمین کی تنخواہ ٢ روپے ماہوار سے لے کر ٤ روپے تک ہوتی تھی اور سونے کا بھاؤ تقریباً پانچ روپے تولہ ہوتا تھا یعنی اس وقت بھی ٣٢ روپے کا چھ سات تولے سونا آ جاتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہوئی کہ روپے کی قیمت تو ہزار گنا گر چکی ہے مگر ٣٢ روپے لوگوں کو اسی زمانہ کے یاد ہیں۔ یہ لوگ تو تفریط کی طرف چلے گئے۔ دوسرا گروہ ایسا ہے کہ جو شوہر کی حیثیت سے بہت زیادہ حق مہر کا مطالبہ کردیتے ہیں۔ مثلاً شوہر کی حیثیت دس پندرہ ہزار سے زیادہ نہیں لیکن وہ مطالبہ ایک لاکھ کا کردیتے ہیں اور زبانی یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ رقم لینی دینی کس نے ہے۔ ہماری غرض تو صرف یہ ہے کہ نکاح نامہ میں اندراج ہوجائے اور اس بھری مجلس میں ذرا ہماری شان بن جائے۔ باقی نکاح کے بعد میاں بیوی اکٹھے ہوں گے تو ہماری لڑکی یہ رقم بخش دے گی۔ یہ لوگ افراط کی طرف جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ شریعت میں ایسی حیلہ سازیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ حق مہر لڑکی کی طرف سے معاف کروانا غلط اور گناہ کی بات ہے۔ ہاں اگر وہ کسی کے دباؤ کے بغیر اپنی رضا و رغبت سے حق مہر سارا یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے تو یہ اور بات ہے۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہیں جو حق مہر کے نام پر اپنی لڑکیوں کو حقیقتاً فروخت کرتے ہیں۔ وہ حق مہر کی کثیر رقم کا مطالبہ کرتے ہیں اور وصول کر کے یہ رقم لڑکی کو نہیں دیتے بلکہ خود کھاتے ہیں اور جب تک انہیں اپنی حسب پسند رقم نہ ملے وہ لڑکیوں کا نکاح ہی نہیں کرتے خواہ وہ بوڑھی ہونے لگیں۔ ایسے لوگ چند در چند کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ حق مہر کی رقم لڑکی کا حق ہوتا ہے اس کے والدین کا نہیں اور اس پر دلیل نکاح شغار کی ممانعت ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے اور نکاح شغار یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیٹی کو اس شرط پر دوسرے شخص سے بیاہ دیتا تھا کہ وہ دوسرا اسے اپنی بیٹی بیاہ دے اور حق مہر کسی کو بھی نہ دینا پڑے۔ (مسلم۔ کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار و بطلانہ) یعنی ہر لڑکی کا ولی یا باپ حق مہر کا ذکر تک اس لیے نہ کرتا تھا کہ وہ اسے ادا کرنا پڑتا تھا اس طرح وہ حق مہر سے لڑکیوں کو محروم کر کے یہ رقم خود ہضم کر جاتے تھے۔ پھر کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اگر عورت حق مہر کی رقم معاف نہ کرے تو اسے طرح طرح سے دکھ پہنچانا شروع کردیتے ہیں اور اس دکھ پہنچانے کی بھی بہت سی صورتیں ہیں۔ ایسی سب باتیں حرام اور گناہ ہیں راہ صواب یہی ہے کہ جو حق مہر طے ہوا ہو وہ بیویوں کو بخوشی ادا کردیا جائے۔