إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔
[١٠] عبادت : یہ لفظ تین معنوں میں آتا ہے۔ (1) پرستش (2) اطاعت و فرمانبرداری (3) ہمہ وقت کی بندگی اور غلامی۔ یہاں یہ لفظ اپنے تینوں معنوں میں مستعمل ہے۔ عبادت کا مفہوم :۔ عبادت تین قسم کی ہے جیسے ہم تشہد میں اس کا اقرار کرتے ہیں۔ (التحیات للہ والصلوات والطیبات) ”یعنی ہماری تمام قلبی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں“قلبی عبادات میں توکل، خوف و رجاء، محبت، تذلل اور خشوع و خضوع شامل ہیں۔ یعنی صرف اللہ پر بھروسہ کیا جائے، اسی سے امید وابستہ کی جائے۔ اسی سے ڈرا جائے اس سے محبت باقی سب چیزوں سے بڑھ کر ہو اور اس کے سامنے انتہائی عاجزی اور خشوع و خضوع کا اظہار کیا جائے۔ بدنی عبادات سے مراد فرض نماز اور نوافل نمازیں، روزہ اور حج اور دوسرے احکام الٰہی کی عملاً پیروی کرنا ہے اور مالی عبادات سے مراد زکوٰۃ، صدقات و خیرات، قربانی اور نذر و نیاز وغیرہ ہیں۔ اگر اللہ کے سوا کسی اور کے لیے ان کاموں میں سے کوئی بھی کام بجا لایا جائے۔ یا اللہ کے سوا کسی اور کو بھی اس میں شریک کیا جائے تو یہ عبادت کی نفی اور اللہ کے ساتھ شرک کرنا ٹھہرے گا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ شرک کا گناہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ [١١] استعانت کا مفہوم :۔ استعانت : (مدد چاہنا) انسان دنیا میں جو کام بھی کرتا ہے وہ یا تو کسی فائدہ کے حصول کے لئے ہوتا ہے یا کسی تکلیف یا نقصان کو دور کرنے کی خاطر۔ ان کاموں کو عربی زبان میں جلب منفعت اور دفع مضرت کہتے ہیں۔ اب انہی کاموں میں سے کسی کے لئے اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص کو یا اللہ کے سوا کسی بھی دوسری ہستی کو پکارے یا اس سے مدد طلب کرے جو اس کے پاس موجود نہ ہو (یعنی ظاہری اسباب مفقود ہوں) تو یہ صریح شرک ہے اس کی مثال درج ذیل شعر میں ملاحظہ فرمائیے : امداد کن امداد کن، از بند غم آزاد کن دردین و دنیا شاد کن یا شیخ عبدالقادرا !! اب اگر کوئی شخص یہ شعر یا وظیفہ اپنی جگہ پر پڑھے یا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی قبر پر جاکر پڑھے تو یہ شرک ہوگا۔ کیونکہ اس میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ یہ فوت شدہ بزرگ میری پکار کو سن بھی رہے ہیں پھر میری مشکل کشائی اور حاجت براری کا اختیار یا تصرف بھی رکھتے ہیں۔ دعا یا پکار کو اللہ تعالیٰ نے عبادت ہی قرار دیا ہے (دیکھئے (٤٠: ٦٠) اور احادیث صحیحہ میں سے ایک کے الفاظ یہ ہیں۔” الدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ “(دعا ہی اصل عبادت ہے) اور دوسری یہ کہ” الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَۃِ “(دعا ہی عبادت کا مغز ہے) ہاں اگر کسی حاضر شخص سے ایسے کام میں مدد چاہی جائے جو اس کے اختیار میں ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بلکہ ایسی امداد و تعاون کے بغیر تو دنیا میں کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جو کام اللہ کے سوا کسی دوسرے کے بس میں نہیں۔ مثلاً اولاد عطا کرنا، رزق میں کمی بیشی کرنا، گناہ بخشنا، عذاب سے نجات دینا وغیرہ وغیرہ ایسے کاموں کے لئے کسی زندہ موجود شخص سے بھی مدد چاہنا شرک ہوگا۔ مگر کسی خطرہ مثلاً سانپ یا دشمن سے بچنے کے لئے مدد حاصل کرنا اور تعاون چاہنا درست ہوگا۔ اس آیت میں ﴿نَعْبُدُ﴾ اور ﴿نَسْتَعِیْنُ﴾ سے پہلے ﴿اِیَّاکَ﴾کا لفظ لایا گیا ہے جو حصر کا بھی فائدہ دے رہا ہے اور تاکید کا بھی اور اس کا معنی یوں بنتا ہے کہ ہم صرف اور صرف تیری ہی عبادت کرتے اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ تیرے سوا نہ کسی کی عبادت کرتے ہیں یا کریں گے اور نہ ہی کسی سے مدد مانگتے ہیں اور نہ مانگیں گے۔ گویا شرک کی جملہ اقسام کے استیصال کے لیے یہ اکیلی آیت ہی کافی ہے۔ نیز اس آیت میں جمع متکلم کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ واحد متکلم کے نہیں ہوئے۔ کیونکہ اسلام نماز باجماعت کی بھی تاکید کرتا ہے اور معاشرتی اجتماعی زندگی اور نظم و ضبط کی بھی۔ علاوہ ازیں﴿نَعْبُدُ﴾کے فوراً بعد ﴿نَسْتَعِیْنُ﴾کا لفظ لایا گیا تاکہ انسان کو اپنی عبادت پر غرور نہ پیدا ہوجائے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ اسے عبادت کی توفیق بھی اللہ ہی کی مدد کی بنا پر میسر آئی ہے۔ جبریہ اور قدریہ دونوں فرقوں کا ردّ:۔ دنیا میں عموماً تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے آپ کو تقدیر کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ جبریہ کہلاتے ہیں دوسرے وہ جو اپنے آپ کو مختار مطلق سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان جو کچھ چاہے کرسکتا ہے ایسے لوگ قدریہ کہلاتے ہیں۔ معتزلین بھی اسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تیسرے وہ جو نہ اپنے آپ کو مختار مطلق سمجھتے ہیں اور نہ مجبور محض اور یہی لوگ دراصل حق پر ہیں۔ اس چھوٹی سی چار الفاظ کی آیت میں جبریہ اور قدریہ دونوں کا رد موجود ہے۔ وہ یوں کہ جب ہم نَعْبُدُ کہتے ہیں یعنی ہم عبادت کرتے ہیں تو اختیار ثابت ہوگیا اور اس میں جبریہ کا رد ہے۔ اور جب ہم مدد چاہتے ہیں تو اس سے بندہ کا محتاج ہونا ثابت ہوا یعنی وہ مختار مطلق نہیں اور اس میں قدریہ کا رد موجود ہے۔ [١٢] علاوہ ازیں چھٹی آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ سوال کرنے یا دعا مانگنے یا مدد چاہنے سے پہلے وسیلہ ضروری ہے اور اس آیت میں وہ وسیلہ عبادت ہے۔ جس کا ذکر پہلے آگیا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث اس مضمون میں پوری وضاحت کر رہی ہے: فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے سنا، جس نے نہ تو اللہ کی حمد بیان کی تھی اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے جلدی کی۔ پھر اسے بلایا اور فرمایا : تم میں سے کوئی شخص بھی جب دعا کرے تو اپنے پروردگار کی تعریف اور ثنا سے شروع کرے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے۔ پھر اس کے بعد جو چاہے دعا کرے۔ (احمد۔ ترمذی۔ نسائی۔ ابو داؤد۔ بحوالہ سبل السلام ج ١ ص ١٩٢ باب صفۃ الصلٰوۃ حدیث نمبر ٤٨)