يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں سے بھی، بے شک اللہ ہمیشہ تم پر پورا نگہبان ہے۔
[١] ایک جان سے مراد ابو البشر آدم ہیں۔ انہی سے آپ کی بیوی سیدہ حوا علیہا السلام کو پیدا کیا گیا۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’میری وصیت مانو اور عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا۔ کیونکہ عورت کی خلقت پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی کے اوپر کا حصہ ٹیڑھا ہوتا ہے۔ اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دو۔ تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا میری وصیت مانو اور ان سے اچھا سلوک کرو۔‘‘ (بخاری : کتاب بدء الخلق، باب وإذ قال ربک للملائکۃ) [٢] اس سورۃ کا آغاز اس آیت سے غالباً اس لئے کیا جارہا ہے کہ اس سورۃ کا بیشتر حصہ عائلی اور معاشرتی قوانین پر مشتمل ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سطح پر سب انسان ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ لہٰذا ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش آنا ضروری ہے۔ [٣] صلہ رحمی کی تاکید اور فضیلت :۔ قریبی رشتہ داروں سے بہترین سلوک کرنا بہت بڑا نیکی کا کام ہے اور ان تعلقات کو بگاڑنا، خراب کرنا یا توڑنا گناہ کبیرہ ہے۔ اس سلسلہ میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ رحم، رحمٰن سے نکلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رحم سے کہا ’’جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرے گا میں اسے قطع کروں گا۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللہ ) ٢۔ فراخی رزق کا نسخہ :۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جو شخص چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمر لمبی ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب۔ باب من بسط لہ فی الرزق/مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب صلۃ الرحم) ٣۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب۔ باب إثم القاطع مسلم کتاب البر والصلہ۔ باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا) ٤۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تو رحم نے کہا (اے اللہ) قطع رحمی سے تیری پناہ طلب کرنے کا یہی موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں! کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ میں اسے ہی ملاؤں جو تجھے ملائے اور اسے توڑوں جو تجھے توڑے؟ رحم نے کہا : ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’تیری یہ بات منظور ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہو تو (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھ لو ﴿ فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ﴾ (سورہ محمد، آیت : ٢٢) (بخاری و مسلم۔ حوالہ ایضاً) ٥۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بدلہ کے طور پر رشتہ ملانے والا، رشتہ ملانے والا نہیں بلکہ رشتہ ملانے والا تو وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے ملائے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب لیس الواصل بالمکافیئ) ٦۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا ’’میرے کچھ قریبی ہیں۔ میں ان سے رشتہ ملاتا ہوں اور وہ مجھ سے رشتہ توڑتے ہیں۔ میں ان سے اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان سے حوصلہ سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جاہلوں کا سا برتاؤ کرتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اگر ایسی بات ہی ہے جو تم کہہ رہے ہو تو گویا تم ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو۔ اور جب تک تم اس حال پر قائم رہو گے ان کے مقابلہ میں اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ ہمیشہ ایک مددگار رہے گا۔‘‘ (مسلم، کتاب البرو الصلہ۔ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا) ٧۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جس زمانہ میں آپ کی (قریش سے) صلح تھی۔ اس دوران میری ماں (میرے پاس) آئی اور وہ اسلام سے بے رغبت تھی۔ میں نے آپ سے پوچھا کیا میں اس سے صلہ رحمی کرسکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہاں‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب صلۃ المراۃ أمھا ولھا زوج) ٨۔ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! مجھے ایسا عمل بتلائیے۔ جو مجھے جنت میں لے جائے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اللہ کی عبادت کرو اور اس میں ذرا بھی شرک نہ کرنا، نماز قائم کرو زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب فضل صلۃ الرحم) ٩۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کوئی گناہ بغاوت اور قطع رحمی سے زیادہ اس بات کا اہل نہیں کہ اللہ اسے دنیا میں بھی فوراً سزا دے اور ساتھ ہی ساتھ آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب بطور ذخیرہ رکھے۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب صفۃ القیامۃ)