سورة الرحمن - آیت 13

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو (اے جن و انس!) تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے ؟

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١] آلاء کا لغوی مفہوم :۔ آلاَءِ (اِلٰی کی جمع بمعنی نعمت بھی اور قدرت یا نشان عظمت بھی) اور آلاء سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان کی ضرورت مہیا کرتی ہیں اور پے در پے آتی رہتی ہیں اور اسے زندگی بسر کرنے کے لیے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ (فقہ اللغۃ) اور یہ لفظ بالعموم جمع ہی استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ ایسی نعمت ایک تو ہے نہیں لہٰذا ہمیشہ آلاء آتا ہے۔ اور یہ آیت اس سورۃ میں اکتیس مرتبہ دہرائی گئی ہے۔ کہیں آلاء کا لفظ عظیم الشان نعمتوں کے معنوں میں اور کہیں قدرت کی نشانیوں کے معنوں میں اور کہیں بیک وقت دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ حدیث میں ہے کہ آپ نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا کہ تم سے تو جن ہی اچھے ہوئے کہ جب میں ﴿فَبِاَیِّ اٰلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ ﴾ پڑھتا تو وہ اس کے جواب میں یوں کہتے ہیں ﴿لاَ بِشَیْئٍ مِنْ نِعَمِکَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَکَ الْحَمْدُ﴾ (اے ہمارے پروردگار! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے۔ سب حمد و ثنا تیرے ہی لیے ہے) لہٰذا جب کوئی شخص یہ آیت پڑھے تو اس کا یہی جواب دینا چاہئے۔ علاوہ ازیں اس آیت اور اس کے بعد کی آیات میں دونوں طرح کی مکلف مخلوق یعنی جنوں اور انسانوں کو مشترکہ طور پر خطاب کیا گیا ہے۔