سورة القمر - آیت 45

سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

عنقریب یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣١] ہجرت حبشہ :۔ قیاس یہ ہے کہ یہ سورت سورۃ نجم سے ڈیڑھ دو سال بعد نازل ہوئی۔ نزولی ترتیب کے لحاظ سے سورۃ نجم کا نمبر ٢٣ ہے اور اس کا نمبر ٣٧ ہے۔ اور سورۃ نجم رجب ٥ نبوی اور شوال ٥ نبوی کے درمیانی عرصہ میں نازل ہوئی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ٧ نبوی میں نازل ہوئی ہوگی۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ کافروں کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر ٨٣ مسلمان مرد اور عورتیں حبشہ کی طرف چلے گئے تھے۔ باقی شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے تھے۔ ان کا معاشرتی بائیکاٹ بھی کردیا گیا تھا اور معاشی بھی۔ باہر سے ان محصورین تک سخت پابندی بھی لگا دی گئی تھی اور مسلمان بھوک اور افلاس کا شکار ہو رہے تھے۔ بعض دفعہ درختوں کے پتے کھانے تک نوبت آجاتی اور یہ سب ظلم و ستم ڈھانے والے یہی سرداران قریش تھے جنہیں اپنی جمعیت پر ناز تھا کہ اسلام لانے کے جرم کا مسلمانوں سے پوری طرح انتقام لے سکتے ہیں۔ اس سورۃ کی آیت نمبر ٤٤ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ اور آیت نمبر ٤٥ میں ایسی پیشین گوئی کی گئی ہے۔ جس کا اس دور میں تصور بھی ناممکن نظر آتا تھا۔ لیکن اللہ کی تدبیر کے مقابلہ میں دوسروں کی تدبیریں کیسے کارگر ہوسکتی ہیں۔ اس سورۃ کے نزول کے سات ہی سال بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ وہ پیشینگوئی جو ناممکن نظر آرہی تھی جنگ بدر میں ایک ٹھوس حقیقت بن کر سامنے آگئی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہے۔ یہ پیش گوئی اس وقت کی گئی جب مسلمان شعب ابی طالب میں محصور تھے اور بدر کے دن پوری ہوئی :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بدر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خیمہ میں مقیم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعا فرمائی : ’’یا اللہ! میں تجھے تیرے عہد اور وعدہ کی قسم دیتا ہوں، یا اللہ! اگر تو چاہے تو (ان تھوڑے سے مسلمانوں کو ہلاک کردے) تو پھر آج کے بعد کوئی تیری پرستش کرنے والا نہ رہے گا۔‘‘ پھر سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام لیا اور کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب بس کیجئے، آپ نے اپنے پروردگار سے التجا کرنے میں حد کردی۔ آپ اس دن زرہ پہنے ہوئے چل پھر رہے تھے۔ آپ خیمہ سے باہر نکلے تو یہ آیت پڑھ رہے تھے۔ ﴿ سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ﴾ (بخاری، کتاب التفسیر) اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتقام لینے والے خود اللہ کے انتقام کا شکار ہوگئے۔ ستر بڑے بڑے کافر موت کے گھاٹ اترے اور اتنے ہی بھاگتے بھاگتے گرفتار ہوگئے۔