سورة آل عمران - آیت 198

لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ لِّلْأَبْرَارِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

لیکن وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈر گئے، ان کے لیے باغات ہیں، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں، اللہ کے پاس سے مہمانی کے طور پر اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ نیک لوگوں کے لیے بہتر ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٩٨] ان دو آیات میں ایک مسلمان اور ایک کافر کی دنیوی اور آخروی زندگیوں کا تقابل پیش کیا گیا ہے۔ فرض کیجئے کہ ایک کافر کی دنیا کی یہ چند روزہ زندگی عیش و آرام سے گزرتی ہے۔ (حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہوتا اسے بھی دنیا میں کئی طرح کے غم اور تکلیفیں برداشت کرنا پڑتی ہیں) لیکن آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ وہ عذاب میں مبتلا رہتا ہے، اور مسلمان کی یہ چند روزہ زندگی، دکھ، مصائب، پریشانی اور تنگدستی میں گزرتی ہے۔ (حالانکہ عملاً ایسا نہیں ہوتا، اسے بھی اس دنیا میں خوشی اور خوشحالی کے لمحات میسر آتے ہی رہتے ہیں) لیکن آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے لیے ہر طرح کی نعمتیں ہی نعمتیں اور عیش و عشرت کی زندگی ہو تو بتلائیے کہ ان دونوں میں سے کون فائدہ میں رہا ؟ لہٰذا محض دنیوی زندگی کا ہی تقابل کرکے دھوکہ میں نہ آنا چاہئے۔ [١٩٩] مہمانی کا لفظ اس لیے فرمایا کہ اہل جنت کو اپنے کھانے پینے کے لیے خود کچھ بھی مشقت یا تردد نہ کرنا پڑے گا۔ بلکہ عزت و آرام سے بیٹھے بٹھائے ہر چیز تیار مل جایا کرے گی جیسا کہ کسی مہمان کو ملتی ہے۔ دنیا میں ان لوگوں نے جس قدر زیادہ دکھ اور اسلام کی راہ میں مصائب برداشت کئے ہوں گے، اتنا ہی انہیں بہتر سے بہتر انعامات سے نوازا جائے گا۔