فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ ۖ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۖ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ
تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول کرلی کہ بے شک میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کروں گا، مرد ہو یا عورت، تمھارا بعض بعض سے ہے۔ تو وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور انھیں میرے راستے میں ایذا دی گئی اور وہ لڑے اور قتل کیے گئے، یقیناً میں ان سے ان کی برائیاں ضرور دور کروں گا اور ہر صورت انھیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، اللہ کے ہاں سے بدلے کے لیے اور اللہ ہی ہے جس کے پاس اچھا بدلہ ہے۔
[١٩٥] یعنی مرد اور عورت چونکہ دونوں ایک ہی نوع سے ہیں۔ لہٰذا نیک اعمال کا جس قدر بدلہ مردوں کو ملے گا۔ اتنا ہی عورتوں کو ملے گا۔ جزائے اعمال کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں اور اس دنیا میں جو مرد کو بیوی پر تفوق حاصل ہے۔ اس کی وجوہ دو ہیں۔ ایک عائلی نظام کا استقلال ہے جو ایک ہی سربراہ کی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے اور مرد چونکہ قویٰ کے لحاظ سے عورت سے مضبوط ہے۔ لہٰذا گھر کا سربراہ وہی ہونا چاہئے، اور دوسرے یہ کہ مرد چونکہ بیوی کے نان و نفقہ اور اولاد کی تربیت اور جملہ اخراجات کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ لہٰذا عقلی طور پر بھی جس کا خرچ ہو رہا ہو اسی کی رائے کو فوقیت دی جانی چاہئے اور یہ معاملہ صرف گھریلو نظام تک محدود ہے۔ رہی جزائے اعمال کی بات تو اس کا انحصار نوع پر نہیں بلکہ ہر عمل کرنے والے کی نیت پر ہے۔ جس قدر نیت پاکیزہ ہوگی اتنا ہی بہتر اجر ملے گا۔ [١٩٦] یعنی جن لوگوں نے میری راہ میں اور اسلام کو سربلند کرنے اور رکھنے کی خاطر جان و مال اور وطن کی قربانیاں دی ہیں اور طرح طرح کے دکھ اٹھائے ہیں، خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں اللہ سب سے یکساں سلوک کرتے ہوئے ان کی لغزشیں معاف فرما دے گا اور ان قربانیوں کا بہترین صلہ عطا فرماتے ہوئے انہیں پربہار باغات میں داخل کرے گا۔ روایات میں آیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! قرآن میں جہاں کہیں ہجرت یا اعمال حسنہ کا ذکر آتا ہے تو مردوں کا ہی آتا ہے عورتوں کا کیوں نہیں آتا ؟ تو اس بات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔