ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ
پھر وہ نزدیک ہوا، پس اتر آیا۔
[٤] آپ کا سیدنا جبرئیل کو پہلی بار اصل شکل میں دیکھنا :۔ ان آیات میں سیدنا جبرئیل علیہ السلام کا ذکر ہے جو بڑی قوتوں کے مالک ہیں۔ قوی قوۃ کی جمع ہے اور ذومرۃ کا لفظ بڑے وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا معنی زور آور، طاقتور، صاحب حکمت اور خوش شکل بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں سیدنا جبرئیل علیہ السلام کو دو بار اپنی اصل شکل میں دیکھا تھا۔ ان آیات میں اس واقعہ کا ذکر ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی بار دیکھا تھا۔ سیدنا جبرئیل مشرقی افق پر نمودار ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان کا درمیانی فاصلہ انہیں سے پر ہوگیا ہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے : سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا۔ آپ وحی بند رہنے کا تذکرہ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ایک بار میں نے (رستہ میں) چلتے چلتے آسمان سے ایک آواز سنی۔ نگاہ اٹھائی تو آسمان کی طرف اسی فرشتے کو دیکھا جو حرا میں میرے پاس آیا تھا۔ وہ زمین و آسمان کے درمیان ایک کرسی پر (معلق) تھا۔ میں اتنا ڈر گیا کہ ڈر کے مارے زمین پر گرگیا ۔ پھر میں اپنے گھر آیا اور گھر والوں سے کہا :’’مجھے کمبل اڑھا دو، کمبل اڑھا دو‘‘ چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اڑھا دیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ﴿یٰاَیُّھَا الْمُدَّثِرْ﴾سے ﴿فَاھْجُرْ﴾ تک۔ اس کے بعد وحی گرم ہوگئی، برابر لگاتار آنے لگی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ ئمدثر) کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر الزام لگاتے تھے کہ کوئی عجمی شخص اسے قرآن کی باتیں سکھا جاتا ہے۔ پھر یہ ہم کو سنا کر کہتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہیں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عجمی شخص نہیں بلکہ اسے کئی قوتوں اور خوبیوں کا مالک فرشتہ یہ قرآن سکھاتا ہے۔