أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ
یا تو ان سے کوئی اجرت مانگتا ہے؟ پس وہ تاوان سے بوجھل کیے جانے والے ہیں۔
[٣٤] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے معاوضہ اور نذریں نیازیں طلب کرتے۔ جیسے عموماً مذہب کے ٹھیکیدار حضرات اپنے معتقدین اور مریدوں سے وصول کرتے اور اپنی دکانیں خوب چمکا لیتے ہیں۔ یہاں یہ معاملہ بھی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے نذرانے طلب کریں اور وہ اسے بوجھ سمجھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پرے ہٹ جائیں۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ مذہبی ٹھیکیداروں کے بالکل برعکس تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ذاتی سرمایا دین کے کاموں میں صرف کر ڈالا تھا۔ دین کی تبلیغ کی وجہ سے آپ کا کاروبار ٹھپ ہوچکا تھا۔ پھر آپ اس تبلیغ کے کام کا کسی صورت میں معاوضہ بھی نہیں لیتے تھے۔ بلکہ بالکل بے لوث اور بے غرض ہو کر انسانیت کی خدمت کر رہے تھے۔