سورة ق - آیت 15

أَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ ۚ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِّنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو کیا ہم پہلی دفعہ پیدا کرنے کے ساتھ تھک کر رہ گئے ہیں؟ بلکہ وہ ایک نئے پیدا کیے جانے کے متعلق شک میں مبتلاہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٧] اللہ تعالیٰ کو کسی انسان یا کسی جاندار مخلوق کی مثل قرار دینا ہی بنیادی غلطی ہے جس سے کئی طرح کی گمراہیوں کی راہیں کھلتی ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی اتنی بڑی کائنات پیدا کرنے کے بعد تھک چکا ہے۔ لہٰذا وہ آئندہ دوسری بار کیسے اس کائنات کو پیدا کرے گا۔ اس کا ایک جواب تو قرآن میں مختلف مقامات پر یہ دیا گیا ہے کہ تمہارے نزدیک بھی ایک چیز کو دوسری بار بنانا پہلی بار سے آسان تر ہوتا ہے تو پھر اللہ کے لئے دوسری بار پیدا کرنا کیسے مشکل ہوگا ؟ اور یہاں یہ جواب دیا گیا ہے کہ اصل بات یہ نہیں۔ وہ ہمیں تھکا ماندہ اور عاجز نہیں سمجھتے بلکہ ان کی عقل یہ بات قبول نہیں کرتی کہ انہیں دوبارہ پیدا کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس سلسلہ میں مشکوک ہی رہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں دونوں احتمال موجود رہتے ہیں۔ مگر چونکہ ان کی نفسانی خواہش یہی تقاضا کرتی ہے کہ محاسبہ نہ ہونا چاہئے لہٰذا وہ اس پر جم جاتے ہیں۔