وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ ۚ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ
اور درختوں کے جھنڈ والوں نے اور تبع کی قوم نے، ان سب نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرے عذاب کا وعدہ ثابت ہوگیا۔
[١٤] ان سب اقوام کے قصے پہلے سورۃ اعراف، یونس، ہود، حجر، فرقان اور دخان میں گزر چکے ہیں اور حواشی میں تفصیلات آچکی ہیں۔ وہاں ملاحظہ کر لئے جائیں۔ [١٥] اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان اقوام میں سے ہر قوم نے اپنے اپنے رسول کو جھٹلایا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر قوم نے سارے رسولوں کو جھٹلایا اس لئے کہ وہ نفس رسالت کے ہی منکر تھے۔ یعنی ان کے خیال کے مطابق کوئی انسان رسول بن کر آ ہی نہیں سکتا تھا۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے رسول کو جھٹلانے کو تمام رسولوں کی تکذیب کے مترادف قرار دیا گیا ہو۔ کیونکہ سب رسولوں کی بنیادی تعلیم ایک جیسی ہے۔ اور رسولوں کو جھٹلانے سے مراد رسول کی تعلیم کو جھٹلانا ہے۔ [١٦] آخرت کی منکر اقوام کا انجام :۔ تمام رسولوں کی بنیادی تعلیم کا ایک اہم جز عقیدہ آخرت پر ایمان رہا ہے۔ اور جن اقوام کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ یہ سب عقیدہ آخرت یا مر کر دوبارہ جی اٹھنے اور اللہ کے حضور پیش ہونے اور اپنے جواب ہی کے عقیدہ کی منکر تھیں۔ عقیدہ آخرت سے انکار کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افراد اور اقوام دونوں کی زندگی کو فتنہ و فساد کی راہوں پر ڈال دیتا ہے۔ اس لئے کہ ایسے انسانوں کو اپنے محاسبہ کا کچھ خوف نہیں رہتا۔ پھر رسول آکر انہیں ان کے برے انجام سے متنبہ کرتے ہیں تو وہ اس قدر سرکش اور گناہوں پر دلیر ہوچکے ہوتے ہیں کہ وہاں سے راہ راست پر واپس آنا کسی صورت گوارا نہیں کرتے۔ الٹا رسولوں کی تکذیب اور انہیں دکھ دینا شروع کردیتے ہیں اور سرکشی اور معصیت میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ انہیں ان کے کرتوتوں کی پاداش میں دھر لیا جاتا ہے اور صفحہ ہستی سے ان کا نام و نشان تک ختم کردیا جاتا ہے۔