وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
اور اگر ایمان والوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو دونوں کے درمیان صلح کرا دو، پھر اگر دونوں میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ پلٹ آئے تو دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
[١٠] آپس میں لڑائی کرنا مومنوں کا کام نہیں :۔ اس جملہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لڑنا مومنوں کا کام نہیں۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ (١) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے : ’’جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں‘‘ میں نے پوچھا : ’’یہ تو رہا قاتل مگر مقتول کا کیا قصور؟‘‘ فرمایا :’’وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب وان طائفتان۔۔ مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب اذا توجہ المسلمان بسیفہما) (٢) احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں اس شخص کی مدد کرنے چلا۔ (راستہ میں) مجھے ابو بکرہ رضی اللہ عنہ ملے اور پوچھا : ’’کہاں جاتے ہو؟‘‘ میں نے کہا :’’اس شخص کی مدد کرنے‘‘ ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’واپس چلے جاؤ۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں‘‘ میں نے پوچھا :’’یارسول اللہ یہ تو ہوا قاتل مگر مقتول کا کیا قصور؟‘‘ فرمایا : ’’وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل پر حریص تھا‘‘ (بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب المعاصی من امرالجاہلیۃ) (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب اذا توجہ المسلمان بسیفہما) [١١] طائفہ کا لغوی مفہوم :۔ یعنی ان پیش بندیوں کے باوجود اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑ پڑیں تو پوری کوشش کرو کہ ان کا اختلاف رفع ہوجائے اور ان میں صلح ہوجائے۔ واضح رہے کہ یہاں طائفہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اور طائفہ عموماً چھوٹی جماعت کو کہتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض مفسرین کے خیال کے مطابق اس لفظ کا اطلاق ایک فرد پر بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی اگر دو مسلمانوں میں لڑائی ہو۔ تب بھی یہی حکم ہے اور یہ تو واضح ہے کہ صلح کرنے والا کوئی غیر جانبدار ہی ہوسکتا ہے۔ خواہ یہ ایک آدمی ہو یا کوئی جماعت ہو۔ پھر صلح کرانے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ فریقین پر اثر انداز ہوسکتا ہو۔ [١٢] مسلمانوں میں صلح کرنا اور عدل کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے :۔ یعنی اگر کوئی شخص اکیلا فریقین پر اثر انداز ہونے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ تو باہم ملکر بھی تمہیں یہ کام کرنا چاہئے' بیٹھ نہ رہنا چاہئے سب سے پہلے حالات اور اختلاف کا جائزہ لو اور دیکھو کہ کونسا فریق حق پر ہے اور کونسا زیادتی کر رہا ہے۔ اب یہ تو واضح ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی۔ زیادتی کرنے والے کے پاس بھی کچھ تھوڑا بہت حق موجود ہوتا ہے اور جو حق پر ہے اس سے بھی کوئی نہ کوئی غلطی ضرور ہوئی ہے۔ لہٰذا پہلے یہ تشخیص کرنا ہوگی کہ زیادہ حق کس طرف ہے اور زیادتی کا مرتکب کون ہے؟ پھر صلح کرانے والی جماعت کو زیادہ حق والے کا ساتھ دینا ہوگا اور اس طرح فریقین پر صلح کے لئے دباؤ ڈالنا ہوگا۔ اور زیادتی کرنے والے پر اتنا دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنی زیادتی کا اعتراف کرے اور اس سے رجوع کرکے حق بات تسلیم کرے۔ جب یہ مرحلہ طے ہوجائے تو پھر یہ نہ کرنا چاہئے کہ حق والے فریق میں یک طرفہ فیصلہ دے کر زیادتی کرنے والے فریق کو پوری طرح دبانے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے اور زیادتی کرنے والے کے پاس بھی کچھ تھوڑا بہت حق تھا تو فیصلہ کے وقت ان باتوں کو ملحوظ رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ کیونکہ یہی بات اقرب الی الحق اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ شماس بن قیس یہودی کا اوس وخزرج کو لڑانا :۔ واضح رہے کہ بسا اوقات دونوں ہی فریق حق پر ہوتے ہیں اور ان کی لڑائی کا سبب کوئی بیرونی دشمن یا بیرونی مداخلت ہوتی ہے۔ عہد نبوی میں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب جنگ بدر میں مسلمانوں کو شاندار فتح نصیب ہوئی تو یہود مدینہ کو اس بات سے سخت صدمہ پہنچا۔ ایک بڈھے یہودی شماس بن قیس نے اس مصیبت کا یہ حل سوچا کہ اوس و خزرج میں از سر نو جنگ بپا کردی جائے۔ اس مقصد کے لئے اس نے ایک نوجوان یہودی کو تیار کیا کہ انصار کی مجالس میں جاکر جنگ بعاث کا ذکر چھیڑ دے اور اس سلسلہ میں اوس و خزرج کی طرف سے جو اشعار کہے گئے تھے انہیں پڑھ پڑھ کر سنائے اور جاہلی عصبیت کو ہوا دے۔ جب اس یہودی نے یہ اشعار پڑھے تو فوراً اوس اور خزرج کے جاہلی دور کے معاندانہ جذبات بھڑک اٹھے تو تو، میں میں شروع ہوگئی اور نوبت بایں جا رسید کہ ایک فریق دوسرے سے کہنے لگا : اگر تم چاہو تو ہم پھر اس جنگ کو جوان کرکے نمٹادیں۔ پھر ہتھیار کی آوازیں آنے لگیں اور قریب تھا کہ ایک خوفناک جنگ چھڑ جاتی۔ آپ کا ان میں صلح کرانا :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ چند مہاجرین کو ساتھ لے کر فوراً موقعہ پر پہنچ گئے اور فرمایا : مسلمانو! میری موجودگی میں جاہلیت کی یہ پکار! اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دی اور تمہارے دلوں کو جوڑ دیا۔ پھر اب یہ کیا ماجرا ہے؟ اس وقت ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ کس طرح شیطانی جال میں پھنس چکے تھے۔ ان کی آنکھیں کھل گئیں پھر اوس و خزرج کے لوگ آپس میں گلے ملنے اور رونے لگے۔ غزوہ بنی مصطلق میں عبداللہ بن ابی کا انصار ومہاجرین کو لڑانا :۔ اس کی دوسری مثال وہ فتنہ ہے جو غزوہ بنی مصطلق سے واپسی سفر کے درمیان عبداللہ بن ابی منافق نے مہاجرین اور انصار کے درمیان کھڑا کرکے ان کو باہم لڑ مرنے پر آمادہ کردیا تھا۔ اس واقعہ کی تفصیل سورۃ منافقون میں آئے گی۔ اس موقعہ پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً موقع پر پہنچ کر معاملہ رفع دفع کرا کر صلح کرا دی تھی۔ اگر صلح نہ کر اسکے تو غیر جانبدار رہے :۔ اور اس آیت کا سب سے بڑا مصداق سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا امیرمعاویہ کے درمیان جنگیں تھیں۔ اور ان جنگوں کا باعث ایک باغی فرقہ تھا۔ چونکہ یہ دونوں فریق سیاسی لحاظ سے بڑے طاقتور تھے۔ لہٰذا کوئی ایسی جماعت پیدا نہ ہوسکی جو ان میں صلح کرا سکتی۔ اس لئے بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ایسے بھی تھے جو ان جنگوں میں غیر جانبدار رہنا ہی غنیمت سمجھتے تھے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا دوسری حدیث سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اشارہ انہی جنگوں کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ اور ان جنگوں میں بہت سے صحابہ غیر جانبدار رہے اور لڑائی میں حصہ نہیں لیا۔