يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنی آوازیں نبی کی آواز کے اوپر بلند نہ کرو اور نہ بات کرنے میں اس کے لیے آواز اونچی کرو، تمھارے بعض کے بعض کے لیے آواز اونچی کرنے کی طرح، ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال برباد ہوجائیں اور تم شعور نہ رکھتے ہو۔
[٢] یعنی جب تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہو تو ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھو۔ اس آیت کا شان نزول درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے : ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آوازیں بلند کرنے کی بنا پر دو نیک ترین آدمی تباہ ہونے کو تھے یعنی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جبکہ بنی تمیم کا ایک وفد (٩ ھ میں) آپ کے پاس آیا (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ان کا کوئی سردار مقرر فرما دیں) ان دونوں میں سے ایک نے اقرع بن حابس کی (سرداری) کا مشورہ دیا جو بنی مجاشع (بنو تمیم کی ایک شاخ) میں سے تھا اور دوسرے نے کسی دوسرے (قعقاع بن معبد) کے متعلق مشورہ دیا۔ نافع بن عمر کہتے ہیں کہ مجھے اس کا نام یاد نہیں رہا۔ اس پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے کہ: ’’آپ تو مجھ سے اختلاف ہی کرنا چاہتے ہیں‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میں آپ سے اختلاف نہیں کرنا چاہتا‘‘ (بلکہ یہ مصلحت کا تقاضا ہے) اس معاملہ میں دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ جب سے یہ آیت نازل ہوئی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اتنی آہستہ بات کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے پوچھنے کی ضرورت پیش آتی۔ لیکن انہوں نے یہ بات اپنے نانا (سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے متعلق نقل نہیں کی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یہ ادب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے لئے سکھلایا گیا اور اس کے مخاطب صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین یا وہ لوگ تھے جو آپ کے زمانہ میں موجود تھے اور یہ ادب اس لئے سکھایا گیا تھا کہ لوگ آپ کو ایک عام اور معمولی آدمی نہ سمجھیں بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ وہ اللہ کے رسول کی مجلس میں بیٹھے ہیں۔ تاہم اس حکم کا اطلاق ایسے مواقع پر بھی ہوتا ہے۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو رہا ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم سنایا جائے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کی جائیں۔ [٣] آواز مقابلتاً پست ہونی چاہئے :۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر نبی سے بات کرنا ہو تو بھی نبی کی آواز سے تمہاری آواز بلند نہ ہونا چاہئے۔ نیز مسجد نبوی میں کوئی بات عام آواز سے زیادہ اونچی آواز سے نہ کی جائے۔ اس بے ادبی کی تمہیں یہ سزا مل سکتی ہے کہ تمہارے نیک اعمال برباد کردیئے جائیں۔ اس آیت کا جو اثر صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین پر ہوا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس (بن شماس) کو (کئی روز تک اپنی صحبت میں) نہ دیکھا۔ ایک شخص (سعدبن معاذ) کہنے لگے : گگیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں اس کا حال معلوم کرکے آپ کو بتاؤں گا‘‘ چنانچہ وہ گئے تو ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنے گھر سر جھکائے دیکھا اور پوچھا : ’’کیا صورت حال ہے؟‘‘ ثابت رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’برا حال ہے میری تو آواز ہی نبی سے بلند ہوتی تھی میرے تو اعمال اکارت گئے اور اہل دوزخ سے ہوا‘‘ سعدرضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بتایا کہ ’’وہ تو یہ کچھ بتاتا ہے‘‘ موسیٰ بن انس کہتے ہیں۔ پھر ایسا ہوا کہ سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ ایک بڑی بشارت لے کر دوسری بار ثابت بن قیس کے ہاں گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سعدرضی اللہ عنہ کو ثابت کے ہاں بھیجا اور کہا کہ اسے کہہ دو کہ : تم اہل دوزخ سے نہیں بلکہ اہل جنت سے ہو۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ خطیب انصار تھے۔ جب مسیلمہ کذاب مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت سمجھوتہ کرنے کی غرض سے آیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی ثابت بن قیس کو اس سے گفتگو کے لئے مامور فرمایا تھا۔ ان کی آواز قدرتی طور پر بھاری اور بلند تھی۔ اس لئے آپ اس حکم سے ڈر گئے۔ آپ نے انہیں اس لئے اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیا کہ وہ بے ادبی یا عدم احترام کی وجہ سے آواز بلند نہیں کرتے تھے۔ بلکہ قدرتی طور پر ہی ان کی آواز بلند تھی۔