هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے کفر کیا اور تمھیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی، اس حال میں کہ وہ اس سے روکے ہوئے تھے کہ اپنی جگہ تک پہنچیں۔ اور اگر کچھ مومن مرد اور مومن عورتیں نہ ہوتیں جنھیں تم نہیں جانتے تھے (اگر یہ نہ ہوتا) کہ تم انھیں روند ڈالو گے تو تم پر لا علمی میں ان کی وجہ سے عیب لگ جائے گا (تو ان پر حملہ کردیا جاتا) تاکہ اللہ اپنی رحمت میں جسے چاہے داخل کرلے، اگر وہ (مومن اور کافر) الگ الگ ہوگئے ہوتے تو ہم ضرور ان لوگوں کو جنھوں نے ان میں سے کفر کیا تھا، سزا دیتے، دردناک سزا۔
[٣٥] یہ کل ستر اونٹ تھے جو صحابہ اپنے ہمراہ لائے تھے۔ جب قریشی اس بات پر اڑ گئے کہ کسی قیمت پر مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے تو معاہدہ صلح کے بعد انہیں وہیں حدیبیہ کے مقام پر ذبح کردیا گیا۔ [٣٦] حدیبیہ میں جنگ نہ لڑنے کا ایک بہت اہم پہلو :۔ مکہ میں کچھ ایسے مسلمان موجود تھے جو قریش مکہ کے مظالم کی وجہ سے اپنا اسلام چھپائے رکھتے تھے۔ اور ان کے پاس ایسے ذرائع بھی موجود نہ تھے کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ چلے جاتے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی فی الواقع معذور تھے۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں اور میری ماں ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ جنگ کی صورت میں ایسے معذور مسلمانوں کو بھی مجبوراً کافروں کی صفوں میں شامل ہونا پڑتا اور حملہ کی صورت میں انہیں یقیناً نقصان پہنچ سکتا تھا جس کی تمہیں خبر تک نہ ہوتی۔ پھر خبر لگ جانے پر تمہیں الگ افسوس ہوتا کہ کافر الگ انہیں طعنے دینے لگتے کہ تمہارے مسلمان بھائیوں نے تمہارا بھی خیال تک نہ کیا۔ [٣٧] صلح حدیبیہ کا اہل عرب پر تاثر :۔ جنگ روکنے اور بہرحال صلح کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ قبائل عرب میں یہ تاثر عام پھیل گیا کہ مسلمان ایک امن پسند قوم ہیں۔ اسی بات سے متاثر ہو کو صلح حدیبیہ کے بعد بے شمار لوگ علی وجہ البصیرت اسلام کو حق سمجھ کر اسلام لے آئے۔ ان میں دو نامور شخصیتیں بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ ایک سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بن ولید سیف اللہ اور دوسرے سیدنا عمرو بن عاص جنہوں نے بعد میں مصر کو فتح کیا۔ [٣٨] البتہ اگر مکہ میں معذور مسلمان موجود نہ ہوتے یا انہیں الگ کرلینے کی کوئی صورت نکل آتی تو پھر یقیناً صلح کے بجائے جنگ ہی بہتر تھی۔ اس صورت میں ہم کافروں کو تمہارے ہاتھوں بری طرح پٹوا دیتے۔