سورة الفتح - آیت 21

وَأُخْرَىٰ لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کئی اور (غنیمتوں کا بھی)، جن پر تم قادر نہیں ہوئے۔ یقیناً اللہ نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٢] صلح حدیبیہ کیسے فتح مکہ کا پیش خیمہ بنی؟ اس سے مراد فتح مکہ ہے۔ جس کا پیش خیمہ یہ صلح حدیبیہ ہی بن گئی تھی۔ اور اللہ کو ٹھیک معلوم تھا کہ یہ صلح کس طرح فتح مکہ کا پیش خیمہ بننے والی ہے۔ صلح نامہ کی دوسری شرط کی رو سے بنو خزاعہ مسلمانوں کے اور بنو بکر قریش کے حلیف بن گئے تھے۔ صلح کے ڈیڑھ سال بعد بنوخزاعہ اور بنوبکر کی آپس میں لڑائی ہوگئی جس میں قریش نے کھلم کھلا بنوبکر کی مدد کی اور جب بنوخزاعہ نے حرم میں پناہ لی تو انہیں وہاں بھی نہ چھوڑا۔ بعد ازاں بنو خزاعہ کے چالیس شتر سوار فریاد کے لئے مدینہ پہنچے۔ آپ کو قریش کی اس بدعہدی پر سخت صدمہ ہوا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لئے تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک تسلیم کرلی جائے۔ (١) بنوخزاعہ کے مقتولین کا خون بہا دیا جائے۔ (٢) قریش بنوبکر کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں۔ (٣) اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔ قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ بھڑک اٹھا۔ ان میں سے ایک شخص فرط بن عمر نے قریش کی طرف سے اعلان کردیا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے۔ قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کا جوش ٹھنڈا ہو کر ہوش و حواس درست ہوئے اور انہیں سخت فکر دامن گیر ہوئی۔ چنانچہ ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لئے بھیجا گیا۔ اس نے مدینہ پہنچ کر رسول اللہ سے تجدید معاہدہ کی درخواست کی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر اس نے علی الترتیب سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک سے سفارش کی درخواست کی۔ لیکن جب سب نے جواب دے دیا تو اس نے خود ہی مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر یکطرفہ اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔ قریش کی یہ بدعہدی، پھر اس کے بعد صرف تیسری شرط منظور کرنے کا جواب دراصل اعلان جنگ کے مترادف تھا۔ چنانچہ آپ نے فتح مکہ کی مہم کا آغاز کردیا اور جب ابو سفیان وہاں پہنچا تو اس وقت تجدید معاہدہ کا وقت گزر چکا تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کسی قسم کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہ تھے۔