سورة الفتح - آیت 20

وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَٰذِهِ وَكَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنكُمْ وَلِتَكُونَ آيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا جنھیں تم حاصل کرو گے، پھر اس نے تمھیں یہ جلدی عطا کردی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیے اور تاکہ یہ ایمان والوں کے لیے ایک نشانی بنے اور (تاکہ) وہ تمھیں سیدھے راستے پر چلائے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٨] اس سے مراد فتح مکہ، حنین کے اموال غنائم ہیں۔ بلکہ صلح حدیبیہ کے بعد وہ کثیر مقدار میں اموال غنیمت بھی جو پے در پے فتوحات کے نتیجہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوتے رہے۔ [٢٩] حدیبیہ کے مقام پرجنگ نہ ہونے کی حکمتیں :۔ اللہ تعالیٰ یہ بات بطور احسان مسلمانوں سے فرما رہے ہیں اور اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ تمہاری پوزیشن اتنی مضبوط نہ تھی کہ کفر کے سب سے بڑے مرکز میں تم دشمن کی تاب لاسکتے۔ لہٰذا اللہ نے جنگ کی صورت پیدا ہی نہ ہونے دی۔ اور یہ بھی ایک طرح سے اللہ کی مدد تھی۔ دوسرے یہ کہ تم مدینہ کا مرکز چھوڑ کر بہت دور نکل آئے تھے۔ جنگ کی صورت میں یہ بھی ممکن تھا کہ تمہارے دوسرے دشمن تمہاری غیر حاضری میں مدینہ پر چڑھ آتے۔ اللہ نے انہیں بھی تم سے روک دیا۔ [٣٠] یہاں آیت سے مراد معجزہ ہے۔ یعنی صلح حدیبیہ جسے بظاہر مسلمان اپنی شکست اور توہین سمجھ رہے تھے وہ درحقیقت ان کی معجزانہ فتح تھی جس کی کفار تو درکنار، مسلمانوں کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ جوں جوں اس کے نتائج سامنے آتے گئے مسلمانوں کو یقین ہوتا چلا گیا کہ دراصل یہ صلح اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔ [٣١] یہ سیدھی راہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے۔ اگر وہ کٹ مرنے کو کہیں تو اس کے لئے تیار ہوجاؤ اور اگر وہ اپنے جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور دب جانے کو کہیں تو اس وقت دب جاؤ۔ جوش و خروش کا مظاہرہ نہ کرو۔ یہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے کہ اسلام کی سربلندی کے لئے فلاں وقت کون سا اقدام بہتر ہے۔