سورة الفتح - آیت 15

سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

عنقریب پیچھے چھوڑ دیے جانے والے لوگ کہیں گے جب تم کچھ غنیمتوں کی طرف چلو گے، تاکہ انھیں لے لو، ہمیں چھوڑو کہ ہم تمھارے ساتھ چلیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔ کہہ دے تم ہمارے ساتھ کبھی نہیں جاؤ گے، اسی طرح اللہ نے پہلے سے کہہ دیا ہے۔ تو وہ ضرور کہیں گے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔ بلکہ وہ نہیں سمجھتے تھے مگر بہت تھوڑا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٧] منافقوں کی غزوہ خیبر میں شمولیت کی خواہش کیوں تھی؟ فتح خیبر کا واقعہ غزوہ حدیبیہ کے تین ماہ بعد محرم ٧ ھ میں پیش آیا۔ جلاوطن شدہ یہود یہیں اکٹھے ہو کر مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ بنونضیر بھی مدینہ سے جلاوطن ہو کر یہیں مقیم ہوگئے تھے۔ انہی کے سردار حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کو ورغلا کر جنگ احزاب میں مسلمانوں کے خلاف عہد شکنی پر مجبور کردیا تھا۔ اور وہ اتحادی کافروں سے مل گئے تھے۔ حدیبیہ کی صلح کے بعد ان لوگوں کی سرکوبی ضروری تھی۔ یہ سفر نسبتاً آسان بھی تھا اور یہاں سے اموال غنیمت کی بھی بہت توقع تھی۔ غزوہ حدیبیہ میں پیچھے رہ جانے والے منافقوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تین ماہ پہلے ہی بتا دیا کہ جب تم اس سفر پر جانے لگو گے تو پھر یہ لوگ تمہارے ساتھ جانے کے لئے فوراً تیار ہوجائیں گے کیونکہ وہاں جان و مال کے ضیاع کا خطرہ کم اور بہت زیادہ اموال غنیمت مل جانے کی توقع ہوگی۔ [١٨] اللہ کا حکم یا فیصلہ یہ ہے کہ جو لوگ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مخلص ہیں۔ اللہ انہیں فتح و نصرت سے ہمکنار کرے اور مالی فائدے بھی پہنچائے۔ مگر یہ منافق یہ چاہتے ہیں کہ جان و مال کے ضیاع کا خطرہ ہو تو یہ بہانے بنا کر اپنی جانیں اور مال بچا لیں اور مخلص مسلمان ہی ایسے مشکل اوقات میں آگے بڑھیں اور جب جان و مال کا کوئی خوف نہ ہو اور مال ملنے کی امید ہو تو یہ بھی ان میں شامل ہوجائیں۔ ان کی اس آرزو سے اللہ کے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ [١٩] غزوہ خیبر میں صرف ان مسلمانوں کو ساتھ لیا گیا جو بیعت رضوان میں شامل تھے :۔ لہٰذا جب خیبر پر چڑھائی کا وقت آئے اور یہ مسلمانوں کے ہمراہ جانے کی آرزو کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دو ٹوک لفظوں میں بتا دیجئے کہ ہم تمہیں اپنے ہمراہ نہیں لے جاسکتے۔ کیونکہ اللہ ہمیں اس بات سے منع کرچکا ہے۔ چنانچہ عملاً یہی کچھ ہوا 'آپ صرف انہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو غزوہ خیبر میں اپنے ساتھ لے گئے جنہوں نے حدیبیہ کے مقام پر آپ کے ہاتھ پر خون پر بیعت کی تھی۔ [٢٠] منافقوں کا جواب بھی ناانصافی پر مبنی ہے : یعنی جب تم بہانہ ساز منافقوں سے یہ کہو گے کہ تم غزوہ خیبر کے مجاہدین میں شامل نہیں ہوسکتے تو وہ فوراً تم لوگوں پر مزید یہ الزام لگا دیں گے۔ تم یہ چاہتے ہی نہیں کہ ہمیں بھی اموال غنیمت سے کچھ حصہ مل جائے اور تم ہمارا حسد کرتے ہو کہ کہیں ہم لوگ بھی آسودہ حال نہ بن جائیں۔ یعنی اس وقت تک بھی ان کا خیال اپنے قصور کی طرف نہیں جائے گا کہ جب ہم کوئی جانی و مالی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تو ہمیں آسانی سے ہاتھ آنے والے مال غنیمت میں کیسے حصہ دار بنایا جاسکتا ہے۔ اس وقت بھی مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ یہ ان کے خبث باطن کی ایک اور دلیل ہے۔