سورة الفتح - آیت 11

سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

عنقریب بدویوں میں سے پیچھے چھوڑ دیے جانے والے تجھ سے کہیں گے کہ ہمارے اموال اور ہمارے گھر والوں نے ہمیں مشغول رکھا، سو تو ہمارے لیے بخشش کی دعا کر۔ وہ اپنی زبانوں سے کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔ کہہ دے پھر کون ہے جو اللہ سے تمھارے لیے کسی چیز کا اختیار رکھتا ہو، اگر وہ تمھارے بارے میں کسی نقصان کا ارادہ کرے، یا وہ تمھارے ساتھ کسی فائدے کا ارادہ کرے، بلکہ اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پورا باخبر ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١] منافق کن وجوہ کی بناء پر صلح حدیبیہ کے سفر میں ساتھ نہیں گئے تھے :۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا ارادہ کیا تو مدینہ اور آس پاس کی بستیوں میں اس کا باقاعدہ اعلان کرایا گیا تھا کہ جو شخص عمرہ کرنے کے لئے آپ کے ہمراہ جانا چاہتا ہو وہ مدینہ پہنچ جائے۔ مگر آس پاس کی بستیوں کے کچھ قبائل مثلاً غفار، مزنیہ، جہینہ، اسلم اور اشجع کے لوگوں نے آپ کے ہمراہ جانے سے گریز کیا یہ لوگ دراصل منافق تھے اور اپنے خیال میں کسی بھلے وقت کے منتظر رہنے والوں میں سے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ قریش مکہ تو مکہ سے یہاں آکر مسلمانوں کے بہت سے افراد کو میدان احد میں قتل کر گئے تھے اب یہ مختصر سی جمعیت جو خود اپنے جانی دشمنوں کے گھر پہنچ رہی ہے وہ لوگ بھلا انہیں زندہ واپس آنے دیں گے۔ اسی خیال سے انہوں نے اس غزوہ سے عدم شمولیت میں ہی اپنی عافیت سمجھی تھی۔ [١٢] جب آپ حدیبیہ سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے تو اس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی اور اللہ نے آپ کو منافقوں کے خبث باطن اور آئندہ کردار سے بھی مطلع کردیا کہ یہ لوگ طرح طرح کے بہانے اور عذر پیش کریں گے کہ ہم فلاں مجبوری کی وجہ سے آپ کے ساتھ نہ جاسکے۔ لہٰذا آپ اللہ سے ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ وہ ہمارا یہ قصور معاف فرمائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کا آپ کو استغفار کے لئے کہنا بھی ایک فریب ہے اور وہ آپ کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں آپ کے ساتھ نہ جانے کا واقعی بہت افسوس ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ وہ اپنی اس حرکت کو اپنا قصور سمجھتے ہیں، نہ انہیں کچھ افسوس ہے اور نہ ہی وہ اپنے لئے دعائے استغفار کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ یہ سب کچھ ان کا زبانی جمع خرچ ہے جس سے وہ آپ کو مطمئن رکھنا چاہتے ہیں۔ [١٣] یعنی اے منافقو! تم نے اس غزوہ سے عدم شمولیت میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے گھروں میں موت سے دو چار کر دے یا اور کوئی مصیبت تم پر ڈال دے تو اس سے تمہیں کوئی بچا سکتا ہے یا تم خود اسے روک سکتے تھے؟ یا مثلاً تم اس سفر پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے جاتے اور اللہ تمہارے اہل و عیال کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے یا اس سفر میں بھی فائدہ پہنچا دے تو کیا اسے کوئی روک سکتا ہے؟